چیف جسٹس آصف کھوسہ جھوٹے گواہوں کے خلاف جلد کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا گواہ کےبیان کا ایک حصہ جھوٹا ہو تو سارا بیان مستردہوتاہے اسلام کےمطابق ایک بارجھوٹا ثابت ہونے پرساری زندگی بیان قبول نہیں ہوتا، جھوٹاگواہ ساری زندگی دوبارہ گواہی نہیں دے پائے گا،جلد اس قانون کا نفاذ کریں گے۔
سپریم کورٹ میں رشتہ کے تنازع پر دو افراد کے قتل کے ملزم کی بریت کیخلاف اپیل کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے قتل کے ملزم کی رہائی کیخلاف مقتولین کے ورثا کی اپیل خارج کردی۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ اللہ تعالی کا حکم ہے سچی شہادت دو، اسلامی اور انگریزی قوانین بھی جھوٹی گواہی تسلیم نہیں کرتے، لاہور ہائی کورٹ نے 40 سال پہلے جھوٹے گواہان کو کھلی چھٹی دی، ہائی کورٹ نے چالیس سال پہلے کہا اس خطے میں لوگ جھوٹ بولتے رہتے ہیں، عدالتی فیصلے کے ذریعے جھوٹ بولنے کا لائسنس دیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قرآن کہتا ہے جس کی ایک شہادت جھوٹی ہو اسکی کوئی گواہی نہ مانو، قانون کہتا ہے جھوٹے گواہ کی شہادت خارج کر دی جائے، چند دن میں ہی انشاءاللہ جھوٹی گواہی خارج کرنے والا وقت واپس آئے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں بھی گواہان نے سچ نہیں بولا، ملزمان حنیف اور شریف پر دو افراد کے قتل کا الزام تھا، وہ رشتہ لینے گئے تھے اور دو افراد کو قتل کرکے جبکہ چار زخمی کروا آئے، ملزمان کسی پر حملہ کرنے نہیں گئے تھے، رشتہ مانگنے والوں کو تو کوئی جان سے نہیں مارتا۔
واضح رہے کہ قتل کا یہ واقعہ 2004 میں گوجرخان کے علاقے مندرہ میں پیش آیا تھا۔ ٹرائل کورٹ نے ایک ملزم کو بری دوسرے کو سزائے موت دی تھی تاہم ہائی کورٹ نے دوسرے ملزم کو بھی بری کیا تھا، جس پر مقتولین کے ورثا نے سپریم کورٹ میں بریت کو چیلنج کیا تھا، سپریم کورٹ نے بریت کا فیصلہ برقرار رکھا۔