سال 2017 میں ارکان پارلیمنٹ نے کتنا ٹیکس دیا؟ اس حوالے سے ٹیکس ڈائریکٹری جاری کردی گئی ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے 1 لاکھ 3 ہزار روپے اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے 2 لاکھ 63 ہزار روپےجبکہ جہانگیر ترین نے نو کروڑ تہتر لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 30 جون 2018 کو ختم ہونے والے مالی سال میں اراکین قومی اسمبلی و سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی جانب سے جمع کرائے گئے انکم ٹیکس کی تفصیلات پر مشتمل پارلیمنٹیرینز کی ٹیکس ڈائریکٹری 2017 جاری کر دی ۔
اراکین قومی اسمبلی میں جہانگیر خان ترین 9 کروڑ 73 لاکھ روپے ٹیکس ادا کر کے سر فہرست جبکہ اراکین سینیٹ میں طلحہ محمود 4 کروڑ 31 لاکھ روپے ٹیکس ادا کر کے سر فہرست رہے۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور قومی اسمبلی میں موجودہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے 1 کروڑ 2 لاکھ روپے، سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار ثنا اللہ زہری نے 1 کروڑ روپے، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 80 لاکھ 72 ہزار روپے، سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور موجودہ وزیر دفاع نے 9 لاکھ 29 روپے ٹیکس ادا کیا۔
ٹیکس ڈائریکٹری 2013 کے عام انتخابات کے نتیجہ میں بننے والی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کی ٹیکس تفصیلات پر مشتمل ہے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 37 لاکھ 89 ہزار روپے، صدر عارف علوی نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 18 لاکھ 6 ہزار روپے، اسفن یار بھنڈارا 2 کروڑ 29 لاکھ روپے، قومی اسمبلی میں سابق قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے 2 لاکھ 56 ہزار روپے، شیخ فیاض الدین 1 کروڑ 40 لاکھ روپے، سہیل منصور خواجہ 28 لاکھ 48 ہزار روپے، پیر محمد امین الحسنات نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 67 لاکھ 47 ہزار روپے، شیخ محمد اکرم نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 50 لاکھ 62 ہزار روپے، اظہر قیوم نہرہ 35 لاکھ 56 ہزار روپے، سردار اویس احمد خان لغاری 4 لاکھ 67 ہزار روپے، سردار محمد جعفر خان لغاری 1 لاکھ 92 ہزار روپے، محمد بلیغ الرحمان نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 87 لاکھ 50 ہزار روپے، میاں امتیاز احمد نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 93 لاکھ 50 ہزار روپے، میر عامر علی خان مگسی نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 17 لاکھ روپے، سید غلام مصطفی شاہ نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 36 لاکھ 43 ہزار روپے، سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ ڈاکٹر عذرا فضل 4 لاکھ 80 ہزار روپے، بھون داس 32 لاکھ روپے، وزیر ریلوے شیخ رشید احمد 7 لاکھ 26 ہزار روپے ٹیکس ادا کیا۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ 2 لاکھ 99 ہزار روپے، میر عامر علی مگسی 15 لاکھ 53 ہزار روپے، ڈاکٹر شیریں مہر النسا مزاری 15 لاکھ 69 ہزار روپے، بیلم حسنین 14 لاکھ 30 ہزار روپے، فریال تالپور 28 لاکھ 69 ہزار روپے، سید غلام مصطفی شاہ 12 لاکھ 90 ہزار روپے، عبدالستار بچانی 21 لاکھ 63 ہزار روپے، محمد علی راشد 63 لاکھ 55 ہزار روپے، جام کمال 61 لاکھ 54 ہزار روپے، زیب جعفر 26 لاکھ 54 ہزار روپے، چودھری افتخار ناظر 48 لاکھ 64 ہزار روپے، حافظ عبدالکریم 35 لاکھ 57 ہزار روپے، حمزہ شہباز شریف 82 لاکھ 68 ہزار روپے، خواجہ سعد رفیق 52 لاکھ 24 ہزار روپے، سابق وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال 3 لاکھ 68 ہزار روپے، سردار ایاز صادق 2 لاکھ 89 ہزار روپے، ڈاکٹر فاروق ستار 1 لاکھ 49 ہزار روپے، شفقت محمود 10 لاکھ 95 ہزار روپے، خواجہ محمد آصف 55 لاکھ 61 ہزار روپے، چودھری پرویز الٰہی 21 لاکھ 30 ہزار روپے، اسد عمر 48 لاکھ 49 ہزار روپے، چودھری نثار علی خان 17 لاکھ 23 ہزار روپے، وزیر پٹرولیم غلام سرور خان 13 لاکھ 84 ہزار روپے، شیخ آفتاب احمد 11 لاکھ 63 ہزار روپے، چودھری محمد شہباز بابر 35 لاکھ 53 ہزار روپے، میاں عبدالمنان 10 لاکھ 49 ہزار روپے، آفتاب احمد خان شیر پاؤ نے 17 لاکھ 75 ہزار روپے ٹیکس ادا کیا۔
سینیٹ ارکان میں روزی خان کاکڑ 4 کروڑ 8 لاکھ روپے ٹیکس کے ساتھ دوسرے، فروغ نسیم 2 کروڑ 78 لاکھ روپے کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے، پنجاب سے ممبران میں چودھری اعتزاز احسن 2 کروڑ 58 لاکھ روپے، فاروق ایچ نائیک 1 کروڑ 10 لاکھ روپے، سلیم مانڈوی والا 14 لاکھ 41 ہزار روپے، شیری رحمان 18 لاکھ 48 ہزار روپے، اسحاق ڈار 93 لاکھ 84 ہزار روپے، چودھری تنویر خان 30 لاکھ 39 ہزار روپے، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم 31 لاکھ 82 ہزار روپے، نزہت صادق 17 لاکھ 57 ہزار روپے، سعود مجید 31 لاکھ 96 ہزار روپے، ظہیر الدین بابر اعوان 47 لاکھ 84 ہزار روپے، خیبر پختونخوا کے سینیٹرز میں شاہی سید 24 لاکھ 11 ہزار روپے، نوشین عزیز 15 لاکھ، نعمان عزیز 10 لاکھ، بلوچستان سے اراکین میں سینیٹر تاج محمد آفریدی 2 کروڑ 93 لاکھ روپے، سجاد حسین 49 لاکھ 69 ہزار روپے، عثمان سیف اللہ خان 32 لاکھ 30 ہزار، اشوک کمار 26 لاکھ 9 ہزار روپے ، میر کبیر احمد 19 لاکھ 12 ہزار روپے، میر نعمت اللہ زہری نے 11 لاکھ 76 ہزار روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔
اراکین پنجاب اسمبلی میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور قومی اسمبلی میں موجودہ قائد حزب اختلاف محمد شہباز شریف نے 1 کروڑ 2 لاکھ روپے، رانا ثنا اللہ خان 12 لاکھ 20 ہزار روپے، چودھری مونس الٰہی 57 لاکھ 37 ہزار روپے، راجہ اشفاق سرور 1 لاکھ 8 ہزار روپے، چودھری سرفراز افضل 53 ہزار روپے، انجینئر قمر الاسلام راجہ نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 4 لاکھ 17 ہزار روپے، راجہ راشد حفیظ نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 16 لاکھ 16 ہزار 5 روپے، شیر علی خان نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 48 لاکھ 16 ہزار روپے، سندھ اسمبلی میں مراد علی شاہ نے 80 لاکھ 72 ہزار روپے ، سید اویس قادر شاہ 1 کروڑ 92 لاکھ روپے، اکرام اللہ خان دھاریجو 12 لاکھ 30 ہزار روپے، علی نواز خان مہر 21 لاکھ 71 ہزار روپے، منظور حسین وسان 1 کروڑ 23 لاکھ روپے، سردار خان چانڈیو 65 لاکھ 50 ہزار روپے، شرجیل انعام میمن 22 لاکھ 11 ہزار روپے، گیانو مال گیان چند 12 لاکھ 19 ہزار روپے، مکیش کمار چاولہ نے 27 لاکھ 37 ہزار روپے ٹیکس ادا کیا۔ اراکین بلوچستان اسمبلی رضا محمد باریچ نے 20 لاکھ روپے، اکبر عسکانی 8 کروڑ 49 لاکھ روپے، میر حمل 25 لاکھ 90 ہزار روپے، راحیلہ حمید خان درانی 22 لاکھ 16 ہزار روپے، زمرک خان نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 20 لاکھ 98 ہزار روپے، مولانا عبدالواسع 18 لاکھ 40 ہزار روپے ، میر سرفراز چکر 16 لاکھ 80 ہزار روپے، سرفراز احمد بگٹی نے 15 لاکھ 90 ہزار روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کے اراکین میں سردار ظہور احمد نے 1 کروڑ 43 لاکھ روپے، نوابزادہ ولی محمد خان 60 لاکھ 89 ہزار روپے، نور سلیم ملک 1 کروڑ 57 لاکھ روپے، جمشید الدین 27 لاکھ 60 ہزار روپے، فضل شکور خان 37 لاکھ 65 ہزار روپے، سکندر حیات خان نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 14 لاکھ 10 ہزار روپے، اسد قیصر نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 45 لاکھ 48 ہزار روپے، اکبر ایوب خان 30 لاکھ 54 ہزار روپے، محمد شیراز 19 لاکھ اور امجد آفریدی نے 63 لاکھ 60 ہزار روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔ ادھر وزیر مملکت برائے ریو نیو حماد اظہر نے ایف بی آر آفس میں ٹیکس پیئرز ڈائریکٹری 2017 کی تقریب سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب چیک کیا جائے گا کہ کس پارلیمنٹیرین نے کتنا ٹیکس دیا اور اس کے اثاثے کتنے ہیں ؟، قانون کے شکنجے سے اب کوئی نہیں بچ سکے گا، لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جن کو منتخب کیا وہ کتنا ٹیکس دیتے ہیں۔ منی بجٹ آئندہ ہفتے منظور کرا لیا جائے گا، منظوری سے آف شور اکاؤنٹس اور اثاثوں پر ٹیکس عائد کیا جا سکے گا۔