بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج اسلامی کانفرنس تنظیم(او آئی سی ) کے وزرائے خارجہ کو اپنی سفارت کاری کی جادوگری سے متاثر کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہیں۔ تنظیم کے اجلاس سے سشما سوراج کے خطاب کے محض ایک روز بعد قرارداد منظور کی گئی جس میں کشمیریوں پر بھارت کے مظالم اور بھارتی دہشت گردی کی مذمت کی گئی ہے۔
اوآئی سی میں منظور ہونے والی اس قرار داد پر بھارت میں نئی صف ماتم بچھ گئی ہے۔ بھارت کے این ڈی ٹی وی نے بھی اس کی دی ہے۔ جبکہ بھارتی وزارت خارجہ نے مختصر ردعمل میں کہا ہے کہ ہمارا مؤقف دیرینہ اور واضح ہے، ہم ایک بار پھر اعادہ کرتے ہیں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔
سشما سوراج نے اوآئی سی کے 46 وزرا اجلاس کے پہلے روز متحدہ عرب امارات کی درخواست پر بطور مہمان خصوصی شرکت کی تھی۔ جس پر پاکستانی وزیرخارجہ نے کانفرنس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ سشما نے اپنے خطاب میں دہشت گردی کا معاملہ اٹھایا تھا اور کہا تھا کہ دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے ممالک کو روکا جائے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ تو کانفرنس کا واضح طور پر بائیکاٹ کر چکے تھے تاہم پاکستانی سفارتکاروں کا ایک وفد وہاں موجود تھا۔ یہ وفد سشما کے خطاب تک ہال میں نہیں گیا تاہم جیسے ہی بھارتی وزیر خارجہ وہاں سے روانہ ہوئیں پاکستانی وفد کانفرنس میں شریک ہوگیا۔
سشما سوراج کا او آئی سی اجلاس میں دہشت گردی کا واویلا
سشما نے اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کو متاثر کرنے کی سرتوڑ کوششیں بھی کی تھیں اور کافی غیررسمی انداز بھی اپنایا۔ ان کی کچھ تصاویر بھی سامنے آئی ہیں۔ لہذا خیال تھا کہ دو روزہ کانفرنس کے اختتام پر ہفتہ کو حتمی اعلامیے میں بھارتی مؤقف کو جگہ ملے گی یا پھر کم از کم پاکستانی مؤقف کہیں نہیں ہوگا۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے اوآئی سی کے اجلاسوں میں فلسطین کے ساتھ ساتھ کشمیر کے مسئلے پر بھی بات ہوتی رہی ہے۔
تاہم پاکستانی سفارتکاروں کی بھرپور محنت کے سبب او آئی سی نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے بیان جاری کردیا۔ اس بیان میں کہا گیا کہ 2016 سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ’’بربریت‘‘، ’’بھارتی دہشت گردی‘‘ اور غیرقانونی حراستوں و گمشدگیوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق او آئی سی نے ایک قرارداد بھی منظور کی جس میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کا خواب سچ کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیانی بنیادی تنازعی یعنی کشمیر کا مسئلہ حل کیا جائے۔ قرارداد میں کشمیریوں کے حق خودارایت کی حمایت کی گئی۔
ابوظہبی سے ذرائع نے بتایا ہے کہ اجلاس کے مرکزی اعلامیے میں صرف بھارتی پائلٹ ابھینندن کی رہائی پر پاکستانی وزیراعظم کا خیرمقدم کیا گیا تھا اور کشمیر کو ذکر چھوڑ دیا گیا تھا۔ تاہم پاکستانی وفد نے ایک علیحدہ اعلامیہ منظور کرایا جس میں زیادہ سخت الفاظ میں بھارت کی مذمت کی گئی اور ’’بھارتی دہشت گردی‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے۔ عالمی برادی مقبوضہ کشمیر کے لیے عام طور پر بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی اصطلاح استعمال کرتی ہے تاہم اعلامیے میں اسے پاکستانی مؤقف کے عین مطابق ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ کہا گیا۔
پاکستان کا او آئی سی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
کانفرنس کے اعلامیے میں بھارت غیرمعمولی دلچسپی لے رہا تھا لیکن علیحدہ اعلامیہ اور پاکستان کی پیش کردہ تین قراردادیں منظور ہونے سے بھارتی ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔
بھارتی صحافی سہاسنی حیدر کا کہنا ہے کہ چونکہ وزیر خارجہ نے کانفرنس میں شرکت کی تھی اس لیے اعلامیے کے جواب میں بھارت کا ردعمل کچھ ٹھنڈا تھا حالانکہ گذشتہ برس ڈھاکہ میں ہونے والی کانفرنس کے اعلامیے کے جواب میں بھارت نے سخت ردعمل ظاہر کیا تھا۔
ادھر سوشل میڈیا پر بھارتی شہری غصے میں ہیں کیونکہ ایک دن پہلے تک او آئی سی کانفرنس میں سشما سوراج کو بطور مہمان خصوصی مدعو کرنے پر بھارتی میڈیا اسے بھارتی سفارتکاری کا کارنامہ قرار دے رہا تھا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ کئی عشروں سے اوآئی سی سے دور رہنا ہی بھارت کے لیے بہتر تھا۔
@sardesairajdeep you praised OIC invite as India's diplomatic coup
Meet condemns Indian terrorism in J n K, mass blinding of KashmirisPleasing Modi Govt I'd what mediafolks are at.@INCIndia was diplomatic enough to shun OIC in all these decades n avoid these insults
— Dharmasthapana✋ (@jaysusri1) March 2, 2019