امریکہ میں 86برس قید کی سزا بھگتنے والی پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی آئندہ چند روز میں پاکستانی واپسی سے متعلق اطلاعات کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ تجزیہ کار ڈاکٹر اوریا مقبول جان نے اپنے ٹی وی پروگرام میں اس حوالے سے دعویٰ کیا تھا تاہم مسلمانوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی برطانوی تنظیم نے ان خبروں کو غیرمصدقہ قرار دیتے ہوئے لوگوں کو محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔
دوسری جانب بعض نامعلوم عناصر نے عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے نام کا ایک جعلی ٹوئٹر اکائونٹ بنا کر اس کے ذریعے ان اطلاعات کی فرضی تصدیق کی اور عمران کا شکریہ بھی ادا کردیا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 2005 میں افغانستان سے گرفتار کرکے امریکہ منتقل کیا گیا تھا جہاں 2010 میں ایک عدالت نے انہیں 86 برس قید کی سزا سنائی تھی۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان گذشتہ برس سے جاری مذاکرات کے دوران چند ماہ قبل خبریں آئی تھیں کہ طالبان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی شرط بھی رکھی ہے۔
جمعرات کو تجزیہ نگار ڈاکٹر اوریا مقبول جان نے نجی ٹی وی پر اپنے پروگرام حرف راز میں دعویٰ کیا کہ انہیں اطلاعات ملی ہیں کہ ڈاکٹرعافیہ صدیقی آئندہ چند روز میں رہا ہوجائیں گی۔ انہوں نے ان اطلاعات کے لیے کراچی میں مقیم عافیہ موومنٹ کے الطاف شکور اور افغانستان میں اپنے رابطوں کا حوالہ دیا۔ اسی دوران سوشل میڈیا پر یہ خبریں پھیل گئیں کہ عافیہ صدیقی 16 مارچ کو پاکستان آرہی ہیں۔
تاہم اوریا مقبول جان کے پروگرام کے دوران ہی جب ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے فون پر رابطہ کرکے پوچھا گیا کہ کیا حکومت کی جانب سے عافیہ کی واپسی کے حوالے سے خاندان کے ساتھ رابطہ کیا گیا ہے تو فوزیہ صدیقی نے تردید کی۔ البتہ فوزیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ حکومت نے انہیں پہلے یقین دہانی کرائی تھی اور اُس یقین دہانی کے مطابق عافیہ صدیقی کو جنوری میں پاکستان آجانا چاہیے تھا۔ جب اوریا مقبول جان نے کہا کہ انہیں امریکی محکمہ خارجہ کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ عافیہ صدیقی خود اپنی رہائی میں دلچسپی نہیں رکھتیں تو فوزیہ صدیقی نے اس بات کو سختی سے مسترد کیا اور کہا کہ اگر وہ دلچسپی نہ رکھتیں تو عمران خان کو خط کیوں لکھتیں، یہ صرف پروپیگنڈہ ہے، ہمارے ’’اپنے لوگ‘‘ ہماری والدہ کو اذیت دے رہے ہیں۔
جہاں فوزیہ صدیقی نے تصدیق سے انکار کیا وہیں مسلمانوں پر مظالم کی دستاویزی رپورٹ کرنے والی برطانوی تنظیم ڈوام(Documenting Oppression Against Muslims) نے ٹوئٹر پر جاری ایک مختصر بیان میں کہا کہ 16مارچ کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق افواہوں کی تصدیق نہیں ہوسکی، ان اطلاعات پر اعتبار نہ کیا جائے۔ نہ تو عافیہ صدیقی کے اہلخانہ اور نہ ہی عافیہ موومنٹ کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بیان جاری ہوا ہے۔
ادھر عافیہ کی ممکنہ رہائی کی تصدیق نہ ہونے کے باوجود سوشل میڈیا پر بعض عناصر نے عافیہ کی رہائی کا سہرا حکومت کے سر باندھنا شروع کردیا۔ اس دوران جعلسازی بھی کی گئی۔ فوزیہ صدیقی کے نام سے ایک جعلی ٹوئٹر اکائونٹ بنایا گیا جس پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ فوزیہ صدیقی کی عافیہ سے بات ہوئی ہے اور امریکہ میں پاکستانی سفارتخانہ عافیہ کا خیال رکھ رہا ہے۔ تاہم یہ اکائونٹ بھی جعلی ثابت ہوا۔ اس اکائونٹ سے وزیراعظم عمران خان کا شکریہ بھی ادا کیا گیا۔