جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کیس کا 12 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریرکیا۔فائل فوٹو
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کیس کا 12 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریرکیا۔فائل فوٹو

یہ لاہور ہائیکورٹ نہیں کہ شور مچا کر فیصلہ لے لو۔سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے سرکاری اراضی کی لیز سے متعلق ایک کیس میں ریمارکس دیے کہ یہ لاہور ہائیکورٹ نہیں جہاں شور مچا کر فیصلہ لے لو۔

سپریم کورٹ میں سرکاری اراضی لیز پر پٹرول پمپس کو دینے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی،جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ پٹرول پمپس کے لیے لیز پر دی گئی اراضی کس کی ہے؟۔ جس پر انہیں بتایا گیا کہ زیادہ تر سائٹس ایل ڈی اے کی ہیں اور کچھ سائٹس میونسپل کارپوریشن اور کچھ پنجاب حکومت کی ہیں۔

وکیل نے بتایا کہ نیلامی کے ذریعے پٹرول پمپس کی سائٹس کو پانچ سال کے لیے لیز پر دے رہے ہیں، لیز پر سائٹس لینے والا کروڑوں روپے زمین پر لگائے گا تاہم پانچ سال لیز کی معیاد کم ہے جسے بڑھایا جائے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سرکاری اثاثوں کو بے رحم انداز میں بانٹا گیا ہے، گلبرگ لیبارٹری مارکیٹ میں ایک سائٹ پانچ ہزار کرائے پر دی گئی، مصری شاہ میں ایک سائٹ چھ سو روپے کرائے پر تھی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیوں نا یہ معاملہ نیب کو بھجوا دیں جو خود دیکھ لے گا کہ اس میں کیا جرم ہوا ہے۔

دوران سماعت جسٹس عظمت سعید نے وکلا کے اونچے بولنے اور کمرہ عدالت میں شور پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ لاہور ہائیکورٹ نہیں جہاں شور مچا کر فیصلہ لے لو، کمرہ عدالت میں وکلا اپنی آواز دھیمی رکھا کریں۔ اس پر وکیل اعتزاز احسن نے جسٹس عظمت سعید سے کہا کہ آپ بھی لاہور سے ہی تشریف لائے ہیں۔

پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ حکومت نے 2003 میں کمرشل اور صنعتی سائٹس کو فروخت کرنے کی پالیسی بنائی تھی، تاہم اب حکومت نے ان سائٹس کو فروخت کرنے کی پالیسی ختم کر دی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نیلامی کے عمل میں حصہ لیے بغیر سائٹ لیز پر نہیں دی جا سکتی۔