چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی نیب ہیڈکوارٹر پیشی کے موقع پر ڈی چوک اور ایوب چوک میدان جنگ بن گیا۔ پولیس نے جیالوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نیب کے سامنے پیش ہوئے جہاں نیب کی جانب سے انہیں 32 سوالات پر مشتمل سوالنامہ دیا گیا۔ جس کا جواب 10 روز میں جمع کرانے کی ہدایت کی گئی۔ اس موقع پر بلاول بھٹو کی ہمشرہ آصفہ بختاور بھی ان کے ہمراہ تھیں۔
ترجمان بلاول بھٹو نے کہا کہ پارٹی چیئرمین کا نیب میں مختصر انٹرویو ہوا اُن کا کمپنی کے مالی اور انتظامی امور سے کوئی تعلق نہیں تھا تاہم انہوں نے وکلا کی مشاورت سے دیے گئے سوالنامے کا جواب جمع کرا دیا۔
بلاول بھٹو زرداری کی نیب ہیڈکوارٹر پیشی کے موقع پر پولیس نے جیالوں کو روکنے کی کوشش کی، اس موقع پر پولیس اور پارٹی کارکنان میں ہاتھا پائی بھی ہوئی تاہم پولیس نے کارکنان کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج، واٹر کینن کا استعمال کیا اور 35 سے 40 کارکنان کو گرفتار کر لیا۔
ڈی چوک پر پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ اور پولیس افسران کے درمیان بھی جھڑپ کے دوران پیپلز پارٹی کی بزرگ کارکن طاھرہ بادشاہ اور گلنار بادشاہ کو بھی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔
ڈی چوک پہنچنے والے پیپلز پارٹی کے کارکنان کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کی جانب سے شیلنگ کا بھی استعمال کیا گیا۔
پولیس کی جانب سے پیپلز پارٹی رہنماؤں نوید قمر، شیری رحمان، فرحت اللہ بابر، ہمایون خان سمیت دیگر رہنماؤں کو بھی ڈی چوک جانے سے روک دیا گیا تاہم پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کی جانب سے آگے بڑھنے کی کوشش کی گئی، اس دوران پولیس نے آگے آنے والے لوگوں کو دھکے دے کر پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی۔
اس موقع پر سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج عمران خان کی آمرانہ سوچ اور چہرہ عوام کے سامنے آ گیا۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے کارکنان کو کال نہیں دی تھی وہ خود پہنچے۔
انہوں نے کہا کہ میں بہت جلد عمران خان کو سڑکوں پر دیکھ رہا ہوں۔ اُن سے یہی کہوں گا کہ باہر نکلو اور اپنا جمہوری چہرہ دیکھو۔ واٹر کینن، گولیاں اور آنسو گیس ہمارا راستہ نہیں روک سکتے۔