معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہاہے کہ بہتر ہوگا کہ اعلیٰ عدلیہ ویڈیو کے معاملے کی چھان بین کرے اور اس پر کارروائی کرے کیونکہ یہ عدلیہ پر حملہ ہواہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کوچاہئے کہ ویڈیو کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن قائم کرے ۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہاکہ ویڈیو کا صحیح فورم پریس کانفرنس نہیں تھا، پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ یہ پہلی قسط ہے اور اگر نواز شریف کو ریلیف نہ دیا گیا تو پھر دوسر ی قسط بھی سامنے آئے گی ۔
انہوں نے کہا کہ شواہد میں کوئی جان ہوتی تو یہ ضمانت کیلیے عدالت جاتے، جج صاحب کوچاہئے تھا کہ جب ان کورشوت کی آفر کی گئی تو آگاہ کرتے اور ایسے لوگوں سے نہ ملتے ۔
انہوں نے کہا کہ اب عدلیہ کواس حوالے سے کارروائی کرنی چاہیے ، یہ مناسب نہیں ہوتا کہ ایک جسٹس کو کسی انتظامی عہدیدار کے سامنے طلب کیا جائے ، اسلام آبادہائیکورٹ کوچاہئے کہ اس معاملے پر جوڈیشل کمیشن قائم کردے ۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر حکومتی فیصلہ مشاورت کے بعد آئیگا،جج صاحب نے بھی اپنی پریس ریلیز جاری کردی ہے کہ اس معاملے کی چھان بین ہونی چاہیے اور اس کے لیے بہتر یہی ہوگا کہ اعلیٰ عدلیہ ہی اس کی چھان بین کرے کیونکہ یہ حملہ عدلیہ پر ہواہے ، اس کام میں وزارت قانون کا مشورہ بہت اہم ہے ، وزارت قانون سے پوچھا جائیگا اور اس کے بعد اس پر کوئی فیصلہ لیا جائے گا۔