اسلام آباد ہائی کورٹ کی سفارش پر وفاقی وزارت قانون نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹادیا ہے۔
ترجمان اسلام آباد ہائی کورٹ کے مطابق جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق کی ہدایت پر رجسٹرار نے وزارت قانون کو خط لکھ کر کہا ہے کہ جج ارشد ملک کی خدمات واپس ان کے اصل محکمہ لاہور ہائی کورٹ کے حوالے کی جائیں۔ ارشد ملک کو پنجاب سے ڈیپوٹیشن پر احتساب عدالت اسلام آباد میں جج لگایا گیا تھا۔
وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ جج ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہے،انہیں وزارت قانون رپورٹ کرنے کا کہا گیا ہے، نواز شریف کی اپیل کا فیصلہ آنے تک سزا برقرار رہے گی۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کسی کو عدالتوں پر دباؤ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
جج ارشد ملک کا کہنا ہے انہوں نے غیر جانبدارانہ فیصلہ کیا، ایک کیس میں نوازشریف کو بری کیا گیا، دباؤ ہوتا تو نواز شریف کو دونوں کیسز میں سزا ہوتی، سماعت کے دوران جج پردباؤ ڈالنے کی سزا قانون میں موجود ہے، ہم قانون اور انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں،عدالتوں کو دباؤ میں لانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
فروغ نسیم کا کہنا تھا جج ارشد ملک سے متعلق فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کرنا ہے، کوئی مجرم ٹھہر گیا اور سزا کاٹ رہا ہے تو اس کی سزا معطل نہیں ہوتی، پاناما کیس میں منی ٹریل دینے کا مسئلہ تھا، منی ٹریل دے دیں تو اس کیس سے نکل سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جج صاحب نے بیان حلفی میں شکایت کی ہے ان پر دباؤ تھا، جج ارشد ملک سے متعلق ویڈیو پر جو کارروائی ہونی ہے وہ ضرور ہوگی۔