سرکاری ملازم کو رجسٹرار سپریم کورٹ تقررکرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔فائل فوٹو
سرکاری ملازم کو رجسٹرار سپریم کورٹ تقررکرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔فائل فوٹو

قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ بنانے کے لیے درخواست دائرکردی

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت عظمیٰ میں فل کورٹ بنانے کے لیے درخواست دائرکردی۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی جانب سے پیرکے روز سپریم کورٹ میں درخواست دائرکی گئی جس میں تمام زیرالتوا درخواستیں سننے کی استدعا کی گئی ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست میں مؤقف اپنایا ہےکہ چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل اورممبران صدر کا دائر ریفرنس سننے کے مجازنہیں۔

جسٹس فائز نے سپریم کورٹ میں دو متفرق درخواستیں دائر کی ہیں۔سوموار کو جمع کروائی گئی درخواست میں جسٹس قاضی فائز نے صدر پاکستان کو خط لکھنے کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل ریفرنس کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے اور استدعا کی ہے کہ ان کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کے موجودہ ارکان کی جگہ کوئی اور سنے کیونکہ کونسل کے چیئرمین اور ارکان کا ان کے خلاف تعصب ظاہر ہے۔

ایک میں چیف جسٹس کے ریفرنس پر فیصلے کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنی درخواست میں کئی اہم انکشافات کیے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیے جانے سے ایک ماہ قبل چیف جسٹس کھوسہ ان کو واک پر لے گئے تھے اور کچھ باتیں کیں۔

انہوں نے لکھا ہے کہ چیف جسٹس نے مجھ سے واک پر جو باتیں کیں وہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے بند کمرے میں بتاوں گا اور پھر چیف جسٹس وہاں مجھے غلط ثابت کریں۔درخواست کے مطابق فل کورٹ بنانے کی عدالتی نظیر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بنام ریاست کیس میں موجود ہے۔ا

ن کا کہنا ہے کہ میری درخواست میں بہت اہم آئینی سوالات جو عدلیہ کی آزادی اور صدر مملکت آزاد رائے سے متعلق ہیں۔ میری درخواست میں وفاقی کابینہ کی منظوری اور جس طریقے سے میرے اور میری فیملی کے کوائف اکٹھے کیے گئے پر بھی قانونی سوال ہیں۔

درخواست میں میں جسٹس فائز عیسیٰ نے لکھا ہے کہ ان کو اور ان کی اہلیہ اور بچوں کو تکلیف پہنچائی جا رہی ہے، اور ایسا اعلی حکومتی عہدیداروں کی ہدایت پر ہو رہا ہے اور وزیرِ اعظم نے ان کی 36 سال سے واحد اہلیہ اور دو بالغ بچوں کواس معاملے میں گھسیٹا ہے۔انہوں نے درخواست میں شکوہ کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے ان کی اور ان کے خاندان کی کردار کشی پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔

پیٹیشن میں لکھا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بار بار اپنی کردار کشی کی شکایت کی مگر کوئی جواب نہیں ملا جس یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ ان کی کردار کشی کی اجازت اعلیٰ حکومتی سطح نے دی ہے۔سپریم جوڈیشل کونسل یہ بات بھول رہی ہے صدر نے میرے خلاف ریفرنس وزیراعظم کی ہدایت پر ہی دائر کیا تھا۔درخواست گزار کی بیوی اور بچوں کی غیر قانونی طریقے سے جاسوسی کی گئی اور پاکستان کے خفیہ آلات اور فنڈز کا ناجائز استعمال کیا گیا۔

جسٹس فائز نے لکھا ہے کہ اگر کہا گیا تو وہ تفصیلات سے بھی اگاہ کر سکتے ہیں۔ان کے مطابق درخواست گزار کی بیوی اور بچوں کی ذاتی تفصیلات اور دستاویزات کی تحقیقات اور جائزہ لیا گیا۔نادرا، ایف ائی اے، پاسپورٹ اینڈ امیگریشن آفس،ایف بی ار اور وزارت داخلہ کے پاس موجود کانفیڈینشل تفصیلات کی بھی سکروٹنی کی گئی۔

بے بنیاد اور غیر متعلقہ تفصیلات اور دستاویزات کی بنیاد پرآدھے سچ گھڑ کرغلط ریفرنس تیارکیا گیا۔کونسل کے حکم نامے میں وزیراعظم اور ان کی ٹیم کی غلط کاریوں کو نظر انداز کیا گیا۔ یہاں تک کہ کونسل نے وزیراعظم سے اپنی تمام ہمدردیاں بھی ظاہر کیں۔

واضح رہےکہ گزشتہ ہفتے سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف دائر ضمنی صدارتی ریفرنس کو نمٹایا جس میں کہا گیا تھاکہ ریفرنس میں دائرالزامات جج کو ہٹانے کے لیے کافی نہیں۔