عارف علوی ترکی کا دورہ صدر طیب اردگان کی دعوت پر کر رہے ہیں ۔فائل فوٹو
عارف علوی ترکی کا دورہ صدر طیب اردگان کی دعوت پر کر رہے ہیں ۔فائل فوٹو

کشمیریوں کی نسل کشی برداشت نہیں کی جائے گی۔صدر مملکت

صدر مملکت ڈاکٹر علوی کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں۔ دوست ممالک کا کشمیر کے مسئلے پر ساتھ دینے پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔ کشمیریوں کی نسل کشی برداشت نہیں کی جائے گی۔ بھارت پاکستان میں ہمیشہ تخریبی کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا پارلیمانی سال مکمل ہونے پر ایوان کو مبارکباد دیتا ہوں۔ آج پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ایک سال ہو گیا ہے ، میرا فرض ہے کہ میں حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عوام کی خدمت کرنے کی توفیق دے۔

صدر کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی سرکار نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کی ہے، بھارتی اقدام کے اقدام کی وجہ سے ہر طرف سے مذمت کی گئی۔ حکومت نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں میں بھرپور اٹھایا ہے۔ ہم سب عوام کو جوابدہ ہیں۔

عارف علوی کا کہنا ہے کہ یہ ہماری بہت بڑی کامیابی ہے کہ اقوام متحدہ کے 50 سال بعد مسئلہ کشمیر کو زیر بحث لایا گیا، خصوصاً بھارت ایڑی چوٹی زور کا لگا رہا تھا۔ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کو کشمیر پر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اسلامی تعاون تنظیم سمیت دیگر عالمی اداروں نے بھی بھارتی اقدام کی شدید مخالفت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اداروں نے مطالبہ کیا کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال اور کرفیو ختم کیا جائے، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے بھی مشترکہ بیان جاری کیا گیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ بھارتی فوج مقبوضہ وادی میں کرفیو ختم کیا جائے اور خصوصی حیثیت بحال کی جائے۔

صدر مملکت کا کہنا تھا کہ چین کی کوششوں کا تہہ دل کا شکر ادا کرتے ہیں، میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کے کامیاب دورہ امریکا پر کو سامنے لانا چاہتا ہوں، وہاں پر وزیراعظم نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ اٹھایا۔ بھارت جابرانہ طریقے سے کشمیریوں کی آواز بند نہیں کر سکتا۔

اکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو یرغمال بنایا ہوا تھا جیسا نازیوں نے جرمنی کو بنایا ہوا تھا، 90 لاکھ کشمیریوں کو شدید خطرات ہیں، اقوام متحدہ اپنے مبصرین مقبوضہ وادی میں بھیجیں اور حالات کا جائزہ لیں۔ حالیہ دنوں میں ایک لاکھ 90 ہزار کے قریب مزید بھارتی فوجیوں کی تعیناتی پر شدید تحفظات ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کے انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں۔ بھارتی سرکار مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، آج اگر دنیا نے نوٹس نہیں لیا گیا تو عالمی امن میں بہت بڑا بحران پیدا ہو جائے گا۔ پاکستان بھارت پر واضح کر دینا چاہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی برداشت نہیں کریں گے۔ پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے عالمی برادری کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس طرح کی کوششیں عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔

صدر کا کہنا تھا کہ ہم کشمیری بھائیوں کیساتھ کھڑے ہیں، اخلاقی، سفارتی لحاظ پر کشمیریوں کے ساتھ ہیں، ہمیشہ ساتھ رہیں گے، بھارت مسلسل لائن آف کنٹرول پر غیر مسلح شہریوں پر فائرنگ کر رہا ہے، جنگ بندی معاہدوں کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ گزشتہ برس حکومت نے متعدد بار ایل او سی کی خلاف ورزی پر عالمی برادری کو بتایا ہے۔ یہ جارحانہ کارروائیاں جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔

ڈاکٹرعارف علوی کا کہنا تھا کہ ہم نے جارحانہ پالیسی کے باوجود امن کے ساتھ جواب دیا، پلوامہ کا واقعہ رونما ہوا تو مودی سرکار نے پاکستان کو ذمہ دارانہ ٹھہرانا شروع کردیا ہے، وزیراعظم عمران خان نے تحقیقات کے لیے ہاتھ بڑھایا اور ثبوت مانگے تھے تاہم بھارت نے در اندازی شروع کر دی، جس کا جواب پاک فضائیہ کی جانب سےدیا گیاجو دنیا نے دیکھا، ہماری حدود میں گرنے والےبھارتی پائلٹ ابھینیندن کو گرفتارکر لیا گیا۔ وزیراعظم نے اگلے روز مشترکہ اجلاس میں اعلان کیا کہ ہم بھارتی پائلٹ کو رہا کر رہے ہیں یہ امن کی جانب ایک بڑا قدم تھا لیکن بھارت پھر بھی مذاکرات کی میز پر نہیں آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کمانڈر کلبھوشن یادیو کو مارچ 2016ء سے گرفتار کیا گیا تھا، بلوچستان میں آنے کا مقصد تخریب کار اور دہشتگردی پھیلانا تھا، پاکستان کی فوجی عدالت نےکلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنا تھی،بھارت یہ معاملہ عالمی عدالت لے گیا جہاں اس کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا۔ دنیا کو ادراک کرنا ہو گا کہ بھارت میں ہندوپالیسی پر مزاحمت کرنا ہو گی۔ آر ایس ایس کی مذہبی جنونیت کی وجہ سے نہرو، مہاتما گاندھی کی پالیسی پیچھے چلے گئی ہے۔

صدرعارف علوی کا کہنا تھا کہ میرے نبی ؐ نے اپنے کردار سے دنیا کو مدینہ کی ریاست بنا کر دکھایا۔ موجودہ حکومت ترقی کی پالیسی پرعمل پیرا ہے، ایک سال کی قلیل مدت میں کابینہ کے 50 سے زائد اجلاس ہوئے جو اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ حکومت اپنے فرائض انجام دہی کے لیے فعال اور متحرک ہے۔ میں خوش ہوں کہ وزیراعظم عمران خان ہر وزارت کی کارکردگی پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف زرداری، چیئر مین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو، مسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہبازشریف مشترکہ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔

صدر مملکت عارف علوی کی دوران تقریر اپوزیشن نے شور شرابہ شور کیا اور صدر مملکت کے ڈائس کا گھیراؤ کرکے حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔