تمام سیاسی جماعتیں مالی سال 2020-21 کے آڈیٹر سے تصدیق شدہ گوشوارے جمع کرائیں۔فائل فوٹو
تمام سیاسی جماعتیں مالی سال 2020-21 کے آڈیٹر سے تصدیق شدہ گوشوارے جمع کرائیں۔فائل فوٹو

دو نئے ارکان کی تعیناتی ’غیر آئینی‘ ہے۔الیکشن کمیشن کا موقف

سیکریٹری الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت کی طرف سے الیکشن کمیشن میں دو ارکان کی تعیناتی کو’غیر آئینی‘قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان دونوں ارکان کی تعیناتی میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔

سیکریٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب فتح محمد نے اپنا یہ موقف اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیان کیا ہے جہاں الیکشن کمشن کے دو ارکان کی تعیناتی کو چیلنج کیا گیا ہے۔

صدر مملکت کی طرف سے چند روز قبل الیکشن کمیشن میں دو ارکان کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس میں سندھ اوربلوچستان کے لیے دو ارکان کی تعیناتی کی گئی تھی۔ صوبہ سندھ کے لیے خالد محمود صدیقی جبکہ بلوچستان کے لیے منیر کاکڑ کو تعینات کیا گیا تھا۔

چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا خان نے ان ارکان سے یہ کہہ کر حلف لینے سے معذوری ظاہر کی تھی کہ ان ارکان کی تعیناتی قانون کے مطابق نہیں کی گئی۔

سیکریٹری الیکشن کمیشن کی طرف سے جمع کروائے گئے اس جواب میں کہا گیا ہے کہ ممبران کی تقرری آئین کے آرٹیکل 213 کی خلاف ورزی ہے اور اس ضمن میں 23 اگست کو سیکریٹری پارلیمانی امور کو آگاہ کردیا گیا تھا۔

اس جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ صدر مملکت نے ممبران کی تقرری کرتے ہوئے 213 اے اور بی کی خلاف ورزی کی ہے اور صدر کی جانب سے دو ممبران کی تقرری آئین میں دیے گئے طریقۂ کار کی خلاف ورزی ہے۔

سیکریٹری الیکشن کمیشن نے اپنے جواب میں مزید کہا کہ چیف الیکشن کمشنر نے ان ارکان سے حلف لینے سے انکار کیا کیونکہ حلف اس سے لیا جا سکتا ہے جسے الیکشن کمیشن میں بطور ممبر تعینات کرنے کے حوالے سے قانونی تقاضے پورے کیے گئے ہوں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دو ارکان کی تعیناتی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران وفاق کے نمائندے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا ممبران کی تقرری کے لیے آئینی حدود کو مدنظر رکھا گیا جس پرایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وہ اس ضمن میں تمام معاملات پر متعقلہ حکام سے ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کریں گے۔

اس درخواست میں بنائے گئے فریقین نے جن میں صدر مملکت، وزیر اعظم اور وفاقی وزارت پارلیمانی امور شامل ہیں، جواب جمع نہیں کروایا جس پرعدالت نے برہمی کا اظہارکیا اورایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا وہ نہیں چاہتے کہ الیکشن کمیشن فعال ہو۔

الیکشن کمیشن کے حکام کے مطابق یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن کے ارکان کی تعیناتی میں نہ تو وزیر اعظم اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے درمیان اتفاق ہوا اور نہ ہی اس ضمن میں قائم کردہ پارلیمانی کمیٹی میں اتفاق رائے پایا گیا۔

واضح رہے کہ دو ارکان کا حلف نہ لیے جانے پر حکومت نالاں ہے اور وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے اس بارے میں سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے بارے میں کہا تھا تاہم ابھی تک حکومت کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں ایسی کوئی درخواست جمع نہیں کروائی گئی ہے۔

حکمراں جماعت کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا خان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے تاہم سپریم جوڈیشل کونسل کے ریکارڈ کے مطابق ابھی تک چیف الیکشن کمشنر کے خلاف کوئی درخواست جمع نہیں کروائی گئی۔