سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کیخلاف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی درخواست پرسماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے پیش کردہ ریکارڈ کا جائزہ لینا ہے،درخواست گزار چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تھے، جب بیرون ملک تین جائیدادیں خریدی گئیں،کیا یہ حقیقت نہیں؟۔
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کیخلاف درخواست پرسماعت ہوئی،جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیراے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ کیس میں معزز جج اوران کے خاندان کی جاسوسی کی جاتی رہی۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ کیس کو شفاف طریقے سے لےکرآگے چلیں گے،وکیل جسٹس قاضی فائز یسیٰ نے کہا کہ جوابات میں بدنیتی کے الزامات کا جواب نہیں،جسٹس عمرعطابندیال نے استفسار کیاکہ ہمیں کیس کے پس منظر کے ذریعے بتائیں کیسے جج صاحب کی تضحیک ہوئی؟
وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ میرے موکل کےخلاف جان بوجھ کر مہم چلائی گئی،جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نفرت پھیلائی گئی؟وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ کیا کسی جج کو کسی فیصلے کی وجہ سے ہراساں کیا جا سکتا ہے؟میرے موکل نے ایک فیصلہ دیا جو پسند نہ آیا،اس فیصلے کے بعد میرے موکل کےخلاف سوچی سمجھی مہم شروع کی گئی۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ہم نے پیش کردہ ریکارڈ کا جائزہ لینا ہے،درخواست گزار چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تھے، جب بیرون ملک تین جائیدادیں خریدی گئیں،کیا یہ حقیقت نہیں؟۔
منیر اے ملک نے کہا کہ پوری قوم کی آنکھیں اس بینچ پر ہیں اتنی عجلت کیوں ہے؟جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے مقدمہ ماضی کے مقدمات سے مختلف ہے، وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ دس رکنی بینچ اس ادارے کا تحفظ کرے۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ مقدمے کی سماعت جلد کریں،ہم مقدمات سننے کے لیے بیٹھے ہیں، اگر آپ لمبا التواچاہتے ہیں تو بتادیں؟ہم مقدمے کو اس ہفتے سنیں گے، ہماری کمیونٹی کے معزز دوست پرالزام ہے اس کو سننا چاہتے ہیں، لوگوں میں پریشانی ہے کہ کیس کیوں سنا جارہا ہے؟۔
جسٹس مقبول باقرنے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل آپ بتائیں کب تک وقت دیا جائے؟جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جواب ملنے کے بعد کم از کم وقت میں جواب داخل کریں، اٹارنی جنرل نے کہاکہ میں جواب صرف قاضی صاحب کی درخواست میں جمع کروانے کا پابند ہوں۔
وکیل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں جواب دے رہا ہوں لیکن اعتراض ہے کہ کیا کونسل کی نمائندگی اٹارنی جنرل کرسکتا ہے، جسٹس عمر بندیال نے کہا کہ کونسل جواب دینے کی پابند نہیں اگر ہے تو کسی کو بھی جواب کےلیے کہہ سکتی ہے۔
قبل ازیں جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 2ہفتے بعد ہمارا ایک ساتھی ہمارے ساتھ نہیں ہوگا،اس لیے چاہتے ہیں معاملے کو تیزی سے نمٹائیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ معذرت چاہتا ہوں کہ جواب ایک ہفتے میں جمع نہ کرا سکا،جلد جمع کرادوں گا،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فی الحال درخواستوں کے قابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل سنیں گے،2ہفتے بعد ہمارا ایک ساتھی ہمارے ساتھ نہیں ہوگا،اس لیے چاہتے ہیں معاملے کو تیزی سے نمٹائیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ رواں ہفتے پاکستان میں ہوں 18 اکتوبر سے ایک ہفتے کےلئے نہیں ہوں گا،جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ اس عرصے کےلئے آپ کوئی متبادل انتظام کر دیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ منیر اے ملک دلائل کا آغاز کریں،ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں اب آپ کی طبیعت کیسی ہے،منیر اے ملک نے کہا کہ اپنی طبیعت کا سماعت کے بعد بتاوَں گا،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیس میں کسی جج کو نظر بند یا معطل نہیں کیا گیا۔