جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیخلاف ریفرنس کی سماعت کے دوران جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آج کل جاسوسی کے طریقے بہت جدید ہوگئے ہیں،آئین کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کے علاوہ کوئی بھی جج کیخلاف انکوائری نہیں کرسکتا، اثاثہ ریکوری یونٹ اورایف آئی اے نے جج کیخلاف انکوائری پہلے کی اور وزیراعظم کو بعد میں بتایا۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ موبائل فون ایسا آلا ہے جس سے لوکیشن بھی معلوم کی جاسکتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز کیخلاف ریفرنس کی سماعت ہوئی،جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 10 رکنی بنچ نے سماعت کی،حامد خان نے کہا کہ وکلا پیش نہیں ہوں گے کیونکہ آمدورفت کی صورتحال ٹھیک نہیں، اگلے ہفتے تک سماعت ملتوی کی جائے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں التوا کی مخالفت کرتا ہوں، مقدمے کےلئے کراچی سے آیا ہوں۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ہم منیراے ملک کو سننا چاہیں گے،جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر التواسے ادارے اچھاتاثرنہیں جائے گا،یہ آئینی ادارہ ہے اس نے اپنا کام کرنا ہے،اس کیس کو سننے کیلیے ہر بار10 ججز اکٹھے ہوتے ہیں،منیر اے ملک یہاں موجود ہیں اور دلائل دینا چاہتے ہیں۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ ہمارے ایک معزز جج 2 ہفتے چھٹی پر جارہے ہیں، اس کیس کی حساسیت کے پیش نظر وہ بھی ہفتے میں 3 دن آئیں گے، یہ عام کیس نہیں، یہ ہمارے ایک معزز جج کا کیس ہے، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ان کا ٹرائل کیوں ہورہا ہے، منیراے ملک نے صحیح کہا کہ ٹرائل سپریم کورٹ کا ٹرائل ہے۔ سپریم کورٹ نے وکیل حامد خان کی درخواست مسترد کردی۔
وکیل منیر اے ملک نے دلائل کہا کہ شہزاداکبر نے وحید ڈوگر سے ملاقات کے بعد وزیرقانون کو تحقیقات کا کہا ،جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ کیافیض آباددھرنے کے فیصلے کے بعد جسٹس قاضی فائزعیسیٰ یاان کے اہلخانہ کبھی برطانیہ گئے؟، اس عرصے کے دوران کیا قاضی فیملی نے کیا اندرون وبیرون ملک سفرکیا، آپ کہنا چاہتے ہیں جاسوسی کے بغیرجائیدادوں کا پتا نہیں لگایا جاسکتا تھا، آج کل جاسوسی کے طریقے بہت جدید ہوگئے ہیں۔
منیب اے ملک نے کہا کہ آئین کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کے علاوہ کوئی بھی جج کیخلاف انکوائری نہیں کرسکتا، اثاثہ ریکوری یونٹ اور ایف آئی اے نے جج کیخلاف انکوائری پہلے کی اور وزیراعظم کو بعد میں بتایا،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ موبائل فون ایسا آلا ہے جس سے لوکیشن بھی معلوم کی جاسکتی ہے۔
منیراے ملک نے کہا کہ درخواست گزار کی فیملی لندن میں رہائش پذیر ہے، جسٹس منیب اخترنے استفسار کیا کہ جائیداد کی چھان بین کے دوران کیا درخواستگزار یا انکی فیملی نے برطانیہ کا دورہ کیا تھا؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو جائیداد بتائی گئی ہے وہ درخواست گزارکی جانب سے تسلیم کی گئی ہے، ابھی تک یہ نہیں پتا لگا سکے کہ شکایت کنندہ نے کیسے پتا لگایا، منیر اے ملک نے کہا کہ فروغ نسیم نے کبھی نہیں بتایا کہ وحید ڈوگر نے دستاویزات کی تحقیق کیسے کی۔
منیر اے ملک نے کہا کہ 2017 تک میرے موکل نے اپنی فیملی کو کوئی تحفہ نہیں دیا، درخواستگزار نے کوئٹہ میں جائیداد فروخت کی، داماد نے قصورمیں جائیداد خریدی، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ اثاثہ ریکوری یونٹ کب تشکیل ہوا،منیر اے ملک نے کہا کہ 2018 میں ازخود نوٹس لیا گیا جو بیرون ملک پاکستانیوں کی جائیداد سے متعلق تھا۔
10 مئی 2019 کا دن میری نظر میں ایک فلم کی طرح طویل دن تھا، شکایت کنندہ کی شکایت وزیراعظم کے پاس جانے سے پہلے ہی تفتیش شروع کی گئی، منیر ملک نے کہا کہ جسٹس قاضی فائزکے7 مارچ کے فیصلے کے بعد حکومتی اتحادیوں کے اعتراضات آنا شروع ہوگئے تھے۔
وحید ڈوگرنے10 اپریل کو ایسٹ ریکوری یونٹ میں درخواست دی جو نامکمل تھی، شہزاد اکبر نے وحید ڈوگرسے ملاقات کے بعد وزیرقانون کو تحقیقات کا کہا، وحید ڈوگر نے نہیں بتایا کہ دستاویزات کہاں سے حاصل کیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کہتے ہیں دھرنا کیس اورنظرثانی درخواستوں کے دوران آپکے موکل کی جاسوسی کی گئی، منیر اے ملک نے کہا کہ جی بالکل ایسا ہی ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ لیکن جاسوسی سے متعلق کچھ ٹھوس مواد نہیں۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آج کے دورمیں تو موبائل بھی جاسوسی کا ذریعہ ہیں، منیر اے ملک نے کہاکہ وزیراعظم کی ہدایت پر صدرپاکستان نے ریفرنس بھجوایا۔