سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سےمتعلق کیس کی سماعت میں ایک بجے تک ملتوی کردی گئی ، چیف جسٹس نےدوران سماعت ریمارکس دیے کہ جو ترمیم آرمی رول میں کی، وہ چیف آف آرمی اسٹاف پرلاگو نہیں ہوتی ، آرمی چیف کمانڈر ہیں،ایک الگ کیٹیگری ہیں۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آسف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3سالہ توسیع سے متعلق کیس کی سماعت کررہا ہے،، جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ آرٹیکل243میں تنخواہ، مراعات، تعیناتی ، مدت ملازمت کا ذکر ہے ، کیا چیف آف آرمی اسٹاف حاضر سرونٹ آرمی افسرہونا چاہیے، کیا کوئی ریٹائرڈافسربھی آرمی چیف بن سکتا ہے، آرمی ریگولیشن میں ترامیم کی گئی ہے تو کاپی فراہم کریں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا یہ نئی ریگولیشن کس قانون کے تحت بنی ہے، اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا آرمی رولز کے سیکشن176 کے تحت255 میں ترمیم ہوئی، جس پر جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہمیں پوری کتاب کودیکھناہےایک مخصوص حصےکونہیں ،آرمی ریگولیشن 255ریٹائرڈ افسرکو دوبارہ بحال کرکے سزا دینے سے متعلق ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا سوال ہے تعیناتی میں مدت ملازمت کہاں سےآتی ہے، آرٹیکل 243تعیناتی سے متعلق ہے اور رول 255دوبارہ تعیناتی کا ہے اور استفسار کیا کیا248 کے تحت لیفٹیننٹ جنرل کوآرمی چیف بنایاجاسکتاہے، ایک شخص کی مدت ملازمت ختم ہوتوکیا سٹیٹس ہو۔
اٹارنی جنرل نے بتایا چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کےعہدےپرترقی دےکربنایاجاتاہے،جسٹس کیانی کامعاملہ کچھ اورتھا، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب جسٹس کیانی نہیں جنرل کیانی تھے، یہ مسئلہ آرٹیکل253 میں حل ہوتاہے ، آرٹیکل 253 کوپڑھ لیتےہیں، کلاز3کےتحت جنرل کی ریٹائرمنٹ عمریامدت پوری ہونےپرہوتی ہے، وزیراعظم کا اختیار ہے ریٹائرمنٹ کومعطل کرسکتاہے، مگر یہ معطلی ریٹائرمنٹ کے بعد ہوسکتی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ترمیم آرمی رول میں کی جو چیف آف آرمی اسٹاف پرلاگو نہیں، آرمی چیف افسران سےاوپرہےایک اسٹاف ہیں، آرمی چیف کمانڈر ہیں،ایک الگ کیٹیگری ہیں، 255 میں آپ نےترمیم کی آرمی چیف اس کیٹیگری میں نہیں آتے، آرمی چیف ریگولیشن میں ذکرنہیں۔بعد ازاں سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سےمتعلق کیس کی سماعت ایک بجے تک ملتوی کردی گئی۔