چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اعزاز میں دیے گئے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کا آغاز سورة النحل سے کیا،انہوں نے کہا کہ جب میں پیدا ہوا تو میرے منہ میں ایک دانت تھا،میرے خاندان میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ بچہ بہت خوش قسمت ہو گا، پیدائش کے وقت منہ میں ایک دانت ہونا بہت ہی کم ہوتاہے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں عدالتی چھٹیاں نکال کر235 دن چیف جسٹس کے منصب پر فائز رہا ،میرے نزدیک ایک جج کو بے خوف و خطر ہونا چاہیے،ایک جج کا دل شیرکی طرح اور اعصاب فولاد کی طرح ہونے چاہئیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیض احمد فیض کی نظم پڑھی جس پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
انہوں نے کہا کہ لوگ تمہیں سمجھائیں گے وہ تم کو خوف دلائیں گے ،میں نے ہمیشہ وہ کیا جسے درست سمجھا،اپنے 22 سالہ کیریئر کے دوران مختلف قانونی معاملات کا ہر پہلو سے جائزہ لیا، قانونی تقاضوں سمیت بغیر خوف اور جانبداری سے فیصلے کیے،بطور جج ہمیشہ اپنے حلف کی پاسداری کی۔
انہوں نے کہا کہ میری اپروچ کو فہمیدہ ریاض کی نظم میں خوبصورتی سے سمویا گیا ہے،میرے لیے یہ اہم نہیں کہ دوسروں کا ردعمل یا نتائج کیا ہوسکتے ہیں، اس عرصے کے دوران عدالتی شعبے میں اصلاحات کیلیے اہم اقدامات کیے، اللہ گواہ ہے میں نے سچائی کےساتھ اپنے حلف پر قائم رہنے کی مکمل کوشش کی۔
چیف جسٹس کا کہناتھا کہ میں نے کبھی فیصلہ دینے میں تاخیر نہیں کی، ازخود نوٹس کےاختیار کو ریگولیٹ کرنے کیلیے مسودہ پیش کردیا گیا ہے، اس مسودے میں ازخود نوٹس کیس کے فیصلے کیخلاف اپیل کاحق زیرتجویزہے،میں نے وڈیو لنک سماعت کا آغاز کیا، سپریم کورٹ میں ریسرچ سینٹر قائم کیا، سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اپ ڈیٹ کی گئی۔
چیف جسٹس کا کہناتھا کہ ان سب سے معذرت خواہ ہوں جنہیں میرے فیصلوں کے سبب نہ چاہتے ہوئے تکلیف ہوئی ۔