چیف جسٹس گلزار احمد نے وزارت خزانہ کے ملازمین کے الاؤنس کے کیس کی سماعت کے دوران سرکاری اداروں میں غیر مساوی تنخواہوں پر سوال اٹھاتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ حکومت کے تمام اداروں کی تنخواہ برابر کی جائے۔
چیف جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے مقدمے کی تیاری کیلیے التوا کی استدعا کی جس پر ان کی سخت سرزنش کی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل صاحب آپ نے ہم ججزپرظلم کیا،ججزکیس کی فائل پڑھ کر آتے ہیں، آپ لا آفیسر کیسے بن گئے،کیا آپ کونوکری پررکھا جا سکتا ہے،عدالت کو ہلکا نہ لیں، ہم التوا کیلیے نہیں بیٹھے۔
چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ بتائیں ریونیو ڈویژن کو 100 فیصد، آڈٹ اوراکاؤنٹ کو 20 فیصد الاؤنس کس قانون کے تحت دیا گیا۔
یہ بھی بتایا جائے کہ فنانس،اکنامک اور ریونیو ڈویژن میں کیا فرق ہے؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ریونیو ڈویژن کی ورکنگ دیگر ڈویژنز سے مختلف ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں یہ حال ہے کہ ہر سرکاری ادارے کی تنخواہ دوسرے ادارے سے مختلف ہے، یہ فرق کیوں رکھا گیا ہے، سب سرکاری اداروں کی تنخواہ ایک کردیں۔
وکیل ملازمین نے کہاکہ دوسرے صوبے میں تین گنا جوڈیشل الاؤنس دیا جا رہا ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ پنجاب،سندھ،بلوچستان اپنی معاشی حیثیت سےجوڈیشل الاؤنس دےرہےہیں۔
چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ ملازمین کو جوڈیشل الاؤنس کی مد میں پاکستان کا خزانہ نہ دے دیں۔
عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو مقدمے کی تیاری کے لیے وقت دیتے ہوئے سماعت موسم سرما کی تعطیلات کے اختتام تک ملتوی کردی۔