آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اس بغاوت کو ناکام بنادیا تھا۔ فائل فوٹو
 آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اس بغاوت کو ناکام بنادیا تھا۔ فائل فوٹو

2014 میں نواز شریف حکومت کیخلاف بغاوت کی کوشش کا انکشاف

 شجاع نوازکی نئی شائع ہونے والی کتاب کے ایک مضمون میں انکشاف کیا گیاہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی ظہیرالسلام نے ستمبر 2014 میں نواز شریف حکومت کیخلاف بغاوت کیلیے کوششیں شروع کیں لیکن اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اسے ناکام بنا دیا۔

ایک رپورٹ کے مطابق شجاع نواز کی کتاب ” بیٹل فار پاکستان ، بیٹر یوایس فرینڈشپ اینڈ ٹف نیبر ہڈ “ شائع ہوئی ہے جو سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز مرحوم کے بھائی ہیں ۔کتاب میں انہوں نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے علاوہ دیگر کئی اہم امورپرروشنی ڈالی ہے ۔اس کتاب میں انکشاف کیا گیا ہےکہ جنرل (ر) ظہیرالاسلام  نے کورکمانڈرز اور ہم خیال فوجی افسران سے گفتگو کی تھی لیکن انہیں آرمی چیف کی حمایت حاصل نہیں ہوئی لہٰذا بغاوت کامیاب نہ ہوسکی۔

اپنی اس تازہ کتاب میں شجاع نواز نے انکشاف کیا ہے کہ امریکیوں کے لیے سابق آئی ایس آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) شجاع پاشا سیدھا نشانہ باز انتہائی قوم پرست جنرل ہے جو جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کے اصرار پر انٹیلی جنس کی دنیا میں آیا۔ وہ ایک فعالیت پسند اور ملک کے سب سے بڑے انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ تھے جس نے اس کے آپریشنز کو حقیقتاً اپنی مرضی سے وسعت دی۔ پاکستان میں امریکی کارروائیوں اور ان کے کارندوں کے بارے میں معلومات اور اطلاعات تک زیادہ دسترس طلب کی۔

جنرل شجاع پاشا کے بعد آئی ایس آئی کے نئے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام کو ملک کے مقامی ایشوز کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا زیادہ تر وقت 2013ءکے عام انتخابات کے بعد سیاسی بحران میں گزرا۔ شجاع پاشا اور ظہیرالاسلام دونوں کے نام اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف گلی کوچوں میں ہو نے والی مخالفت سے جوڑے جاتے ہیں۔ گو کہ اس کا کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آیا۔

ظہیرالاسلام آئی ایس آئی کے ونگز یا ڈائریکٹوریٹس کے بھی سربراہ رہے اور کورکمانڈر کی حیثیت سے کراچی کی ہنگامہ خیز سیاست میں بھی رہے۔ واضح رہے کہ ظہیرالاسلام اور احمد شجاع پاشا نے سروس میں اپنے کردار کے حوالے سے کوئی مو¿قف نہیں دیا۔

شجاع نواز کا کہنا ہے کہ شجاع پاشا کے بعد ظہیرالاسلام کی بھی امریکا کی طرف سے نگرانی جاری رہی۔آئی ایس آئی کے ایک سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) رضوان اخترامریکی تربیت یافتہ افسر تھے جن کے اپنے امریکی ہم منصبوں سے خوشگوار تعلقات تھے تاہم بات کرنے والوں پراپنا تاثر چھوڑنے کے حوالے سے انہیں جدوجہد کرنا پڑتی تھی۔ خصوصاً ایسے موقع پرجب افغان جنگ گفتگو کاموضوع ہو۔

ایک امریکی افسر کے مطابق افغان مفاہمت کے موضوع پر گفتگو میں رضوان اختر افغان طالبان کمانڈرز کے نام بھول گئے۔ امریکیوں کی جانب سے انہیں تنقید کابھی سامنا ہوتا۔ وہ ایک دستیاب ڈائریکٹرجنرل آئی ایس آئی تھے۔ کراچی میں اکثر دکھائی دیتے جہاں وہ ڈائریکٹر جنرل رینجرز بھی تعینات رہے۔