سابق وفاقی وزیر قانون علی ظفر نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کیخلاف تمام مقدمات ختم ہو گئے ا گر پرویز مشرف آناچاہیں تو واپس آ سکتے ہیں۔
سابق وفاقی وزیر قانون بیرسٹر علی ظفر نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ اپنی نوعیت کویونیک اوردرست فیصلہ ہے کیونکہ عدالت کے سامنے جو دستاویزات رکھے گئے اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ پرویز مشرف کےخلاف خصوصی عدالت کی تشکیل میں کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی ہائیکورٹ نے دو دن بحث کے بعد خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیرآئینی اور غیرقانونی قراردیا۔
علی ظفر نے کہا کہ عدالت کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا کہ پورے کے پورے عمل کو کالعدم قراردے اس لحاظ سے فیصلہ قانون اورآئین کے مطابق ہے ،علی ظفر کاکہناتھا کہ ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد پرویز مشرف کیخلاف تمام آرڈزختم ہو گئے ،جب خصوصی عدالت کی تشکیل ہی غیرقانونی اورغیرآئینی تھی تو اس کے بعد خصوصی عدالت کے جتنے بھی فیصلے ہوںگے وہ سب ختم ہو گئے ا گر پرویز مشرف آناچاہیں تو واپس آ سکتے ہیں۔
علی ظفرنے کہا کہ جب اس ٹربیونل کی تشکیل ہو رہی تھی تواس کے سیکریٹری قانون نے وزیراعظم اورکابینہ کو لکھا کہ اب چونکہ آرٹیکل 90 آچکا ہے اس لیے اس کی تشکیل کافیصلہ وفاقی کابینہ کوہی کرنا ہے اس وقت وفاقی کابینہ نے فیصلہ نہیں کیا ۔
ان کا کہناتھاکہ جب شروع شروع میں یہ کیس خصوصی عدالت کے پاس گیا تو مشرف کے وکلا نے اس وقت ایک درخواست دی تھی اس درخواست میں لکھاتھا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل درست نہیں اس لیے آپ آگے نہیں سن سکتے لیکن اس پر کوئی مثبت فیصلہ نہیں کیاگیا۔
انہوں نے کہا کہ اب پرویز مشرف پر کوئی کیس نہیں اب کابینہ اوروزیراعظم سابق صدرپرویز مشرف کے خلاف کیس چلانے کافیصلہ کریں گے توپھر دوبارہ سے درخواست دائر کرناپڑے گی اوردوبارہ سے عدالت بنے گی اوریہ کیس آگے چلے گا۔انہوں نے لاہورہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔