سپریم کورٹ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو جسٹس فائزعیسی کی اہلیہ کیساتھ تعاون کی ہدایت کردی۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیس کی سماعت کی۔ پاکستان بار کونسل کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریفرنس کے ذریعے جج کی پراسیکیوشن ہو رہی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ سلمان اکرم راجہ آپ لکیرعبور نہ کریں، کسی جج کی پراسیکیوشن نہیں ہو رہی، آرٹیکل 299 کے تحت جج جوابدہ ہے، جوڈیشل کونسل کو فیصلہ کرنے دیں، ٹیکس کا مسئلہ ہوا تو کونسل ٹیکس اتھارٹی کو بھیج دے گی، جج کی اہلیہ اور بچوں سے اثاثوں کے بارے میں پوچھے بغیر صدارتی ریفرنس بھیج دیا گیا، جج پرمنی لانڈرنگ کا الزام لگا دیا گیا۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میری دلیل یہ ہے کہ ریفرنس سے پہلے اہلیہ اور بچوں سے پوچھا جاتا، اہلیہ اور بچوں کا حق ہے ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے، قانون اجازت دیتا ہے گوشوارے غلط ہوں تو درست کرلیں، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کوتقریر پرعہدے سے ہٹا دیا گیا۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ریفرنس کے بعد جج پردھبہ لگ جاتا ہے، ریفرنس بنانے میں احتیاط برتی جانی چاہیے۔جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے وکیل منیراے ملک نے بتایا کہ جسٹس فائزعیسی کی اہلیہ گزشتہ روز ٹیکس حکام کے سامنے پیش ہوئیں اوراپنا ٹیکس ریکارڈ کراچی سے اسلام آباد منتقلی کا طریقہ معلوم کیا۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سے کہا کہ جج کی اہلیہ الزامات کا جواب دینا چاہتی ہیں تو موقع ملنا چاہیے، جسٹس فائزعیسی کی اہلیہ کا ایف بی آر کو جواب عدالت میں بھی پیش کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے ایف بی آر کو جسٹس فائزعیسی کی اہلیہ کیساتھ تعاون کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ غیرملکی جائیدادوں پر جواب دینا چاہتی ہیں تو موقع دیا جائے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل آئندہ سماعت تک ایف بی آر سے تفصیلات لیکر پیش کریں۔عدالت نے جسٹس فائزعیسی کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔