سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ سے متعلق رپورٹ جمع کرادی،جسٹس عمر عطابندیال نے اہم نقطہ اٹھاتے ہوئے کہاکہ پہلا نقطہ ہے کہ جج کیخلاف انکوائری کااختیاراے آر یو یونٹ کو کس نے دیا،کس قانون کے تحت حکومتی حکام نے ریفرنس کو پبلک کیا،اٹارنی جنرل صاحب!ان دونوں قانونی نکات کے جواب بہت اہم ہیں۔
سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کیخلاف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ و دیگرکی درخواستوں پرسماعت ہوئی،جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں بنچ نے سماعت کی،وکیل درخواست گزارنے کہا کہ صدرمملکت کوسیاسی وابستگی سے بالاتراورغیرجانبدار ہونا چاہیے،فیصلوں پرججزکوہدف تنقید بنایا جاسکتا ہے ،بدنیتی سے دائرریفرنس کے بھی نتائج ہیں ۔
اٹارنی جنرل نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ سے متعلق رپورٹ جمع کرادی،اٹارنی جنرل نے کہاکہ جسٹس قاضی فائزکی اہلیہ کہتی ہیں کہ گوشوارے کراچی میں فائل کررہی ہوں،جسٹس قاضی کی اہلیہ کہتے ہیں آمدن قابل ٹیکس نہیں رہی تب ریٹرن فائل نہیں کیے۔
جسٹس قاضی کی اہلیہ نے اسلام آباد سے ریکارڈ کراچی منتقل کرنے کی درخواست کی ،مسزفائزعیسیٰ نے2012 ،2013 میں آن لائن ریٹرن فائل کیے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف بی آر کے مطابق مسزفائزعیسیٰ کو 2015 کے بعد ریٹرن نہ جمع کروانے پر نوٹس کیے ،مسزفائزعیسیٰ کے ریٹرن کا ریکارڈ کراچی بھجوادیا ہے،مسزفائزعیسیٰ کو بھی ایف بی آرکی رپورٹ سے آگاہ کردیاہے۔
جسٹس عمرعطابندیال نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل آپ کب دلائل دیں گے؟،اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے مقدمے کی تیاری کیلیے وقت دیا جائے ،عدالت کے ہر سوال کا جواب دوںگا۔
جسٹس عمرعطابندیال نے کہاکہ پہلا نقطہ ہے کہ جج کیخلاف انکوائری کااختیاراے آریو یونٹ کو کس نے دیا،کس قانون کے تحت حکومتی حکام نے ریفرنس کو پبلک کیا،اٹارنی جنرل!ان دونوں قانونی نکات کے جواب بہت اہم ہیں۔