سپریم کورٹ آف پاکستان نے تجاوزات کیس میں کراچی کا دوبارہ ڈیزائن بنانے کا حکم دیدیا،عدالت نے کہاکہ بتایا جائے کراچی کو جدید ترین شہرکیسے بنایا جاسکتا ہے،عدالت نے سول انجینئرز،ماہرین اورٹاﺅن پلاننزسے مدد حاصل کرنے کا حکم دیدیا ،عدالت نے آگاہی مہم چلانے کابھی حکم دیتے ہوئے کہاکہ شہر کراچی کیسے بہترہوگا؟،اخبارات اورٹی وی پر لوگوں کو بتایاجائے کراچی کیسے بہترہوگا ۔
سپریم کورٹ میں تجاوزات کیس پر سماعت ہوئی،چیف جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں بنچ نے سماعت کی،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ کی سڑکیں ختم ہورہی ہیں گلیوں سے آدمی گزرنہیں سکتا کیا کررہے ہیں ،طارق روڈ کا کیاحال ہوچکا ہے ،عمارتیں ضرور بنائیں ،کوئی پلاننگ توکریں ۔
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ یہ اب آپ لوگوں کے بس کی بات نہیں ،اس کیلیے دنیا سے ماہرین منگوانا پڑیں گے ،لائنزایریااورمزارقائد کے اطراف کیا ہو رہاہے، خدادادکالونی کودیکھ لیں ،مزار قائد کے ماتھے کاجھومر بنا کر رکھاہواہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ مزارقائد کے سامنے فلائی اوورکیسے بنادیا؟عمارتیں بناڈالیں مزارقائد چھپ کر رہ گیاہے، شاہراہ قائدین کا نام کچھ اورہی رکھ دیں وہ قائدین کی شاہرہ نہیں ہوسکتی ۔
جسٹس فیصل عرب نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ نے ملائیشیافارمولہ سناہے؟،جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ کوالالمپور کوکیسے صاف کیا،ذرااس پر ریسرچ کریں ،اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ ہم ملائیشیا فارمولے پرہ کام کررہے ہیں ،تھوڑا ساوقت دیں وفاق اورسندھ حکومت آپس میں بات کرسکتے ہیں ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ شہری حکو مت کام کررہی ہے صوبائی اور نہ ہی وفاقی،جب کوئی حکومت کام ہی نہیں کررہی تو کراچی کیلیے پھر کس کو بلائیں ؟،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کراچی میگاپرابلم سٹی بن چکا ،اٹارنی جنرل نے کہاکہ پلان کی ضرورت ہے وقت دے دیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ہمیں پتہ ہے متاثرین کو جس طرح پیسے دیے جاتے ہیں ،اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ میں اس معاملے کو دیکھ لوں گاحل ضرور نکال لیں گے ،چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگوں کاکوئی وژن نہیں کیا کرناہے کسی کو معلوم نہیں ۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہم نہیں چاہتے ہمارے منہ سے ایسے کوئی الفاظ نکلیں جو کسی کیلیے نقصان دہ ہوں،مسئلہ یہ ہے آپ کاکوئی ادارہ ٹھیک نہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہاجی !آپ درست کہہ رہے ہیں ،کوئی ادارہ ٹھیک نہیں ،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ ووٹ لینے کی نظر سے معاملات دیکھ رہے ہوتے ہیں،سلمان طالب الدین نے کہا کہ ریلوے نے 6 ہزار لوگوں کو بے گھر کردیا،چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ سلمان صاحب!انہیں کس نے بٹھایا؟،آپ کے پاس وسائل ہیں سب کر سکتے ہیں مگر نہیں کریں گے ۔
ایڈووکیٹ جنرل نےکہاکہ وفاق نے 100 ارب دینے ہیں وسائل نہیں ،چیف جسٹس نے کہا اگر 100 ارب روپے مل بھی جائیں توکیا ہوگا ایک پائی لوگوں پر نہیں لگے گی،105 ارب روپے پہلے ملے ایک پائی نہیں لگی ۔
جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ میں اس شہر میں پیدا ہوا بتائیں شہر میں کون سی جگہ خالی چھوڑی؟،پولیس اسٹیشن تک کرایہ پرلے رکھے ہیں سب بیچ ڈالا،ہمیں تکلیف اس لیے ہے آپ نے کچھ نہیں چھوڑا،سلمان طالب الدین نے کہا کہ مجھے اورانور منصور خان کو بھی یہی تکلیف ہے ،چیف جسٹس نے کہاکہ نے کہاکہ یہ دکھ اور تکلیف مجھے بھی ہے ۔
سلمان طالب الدین نے کہا کہ آخراس شہر کاکیاہوگاافسرتوکہانیاں سنا کرچلے جاتے ہیں ،اس سارے معاملے کو روکنے کیلیے کچھ تو کرنا ہوگا،جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ کوئی گراﺅنڈ چھوڑا اورنہ ہی ہسپتال کی جگہ ۔
عدالت نے کہا کہ بتایا جائے کیسے کچی آبادیوں کو جدید طرزپربنایا جاسکتا ہے،عدالت کا وفاقی اورصوبائی حکومت کو ماہرین سے مشاورت کرکے پلان ترتیب دینے کا حکم دیدیا
عدالت نے کراچی کادوبارہ ڈیزائن بنانے کا حکم دیدیا،عدالت نے کہاکہ بتایا جائے کراچی کو جدید ترین شہرکیسے بنایا جاسکتا ہے، عدالت نے سول انجینئرز،ماہرین اورٹاﺅن پلاننزسے مدد حاصل کرنے کا حکم دیدیا،عدالت نے آگاہی مہم چلانے کا بھی حکم دیتے ہوئے کہاکہ شہر کراچی کیسے بہترہوگا؟،اخبارات اورٹی وی پر لوگوں کو بتایاجائے کراچی کیسے بہترہوگا ۔
عدالت نے کہاکہ آئندہ سیشن تک سندھ حکومت کی تجاویز کاجائزہ لیا جائے گا،سلمان طالب الدین نے کہاکہ میں آپ کو یقین دلاتاہوں اچھی تجویزدیں گے،میں خودبتاﺅں گا کراچی کے مستقبل کیلئے کیاحتمی پلان ہے ،چیف جسٹس نے کہا کہ پتہ نہیں چل رہا کس پر بھروسہ کریں۔
ان طالب ایک کمیٹی بنائی گئی ہے میں خوداس پر بریف کردوں گا،شہری خاتون نے کہ یہ کمیٹی کے چکر میں وقت گزارناچاہتے ہیں،ان کی کمیٹیوں میں تووہی سب کچھ ہے جویہ کررہے ہیں۔