بی جے پی نے دہلی اسمبلی الیکشن کے لیے اپنی انتخابی تشہیر میں بی جے پی نے شاہین باغ احتجاج کو خوب اچھالا اوراس کے ذریعہ اس نے ووٹوں کی صف بندی کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ سے لے کر پارٹی کے ہرایک لیڈرنے شاہین باغ احتجاج کو اپنے انتخابی اجلاسوں میں کیش کرانے کی کوشش کی اور یہ پیغام دینا چاہا کہ اس احتجاج کے پیچھے عام آدمی پارٹی اور کانگریس کا ہاتھ ہے۔
شاہین باغ میں احتجاج کرنے والوں کو ملک مخالف اورغدار وطن ثابت کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ ووٹروں سے یہاں تک کہا گیا کہ ووٹنگ مشینوں پر بٹن اتنا زور سے دبائیں کہ بٹن تو یہاں دبے لیکن اس کا کرنٹ شاہین باغ کو لگے۔
لیکن انتخابی نتائج نے یہ ثابت کردیا کہ دہلی کے عوام نے شاہین باغ اور اشتعال انگیز نعروں کے نام پر پولرائزیشن کی سیاست کو کلی طورپرمسترد کرکے بے جے پی کی نفرت انگیز سیاست کو دفن اور مودی کا غرور خاک میں ملا دیا۔
اس بارکے دہلی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی اوراس نے اپنے 200 ارکان پارلیمنٹ سمیت وزیراعظم نریندر مودی اورکئی وزرا کو انتخابی تشہیرکے میدان میں اتار دیا تھا۔
بی جے پی نےالیکشن جیتنے کے لیے اشتعال انگیز نعروں سے لے کر سی اے اے، این آر سی اوراین پی آر کے سلسلہ میں شاہین باغ میں جاری احتجاجی مظاہرہ کو اپنا مدعا بنایا، لیکن کیا اس کا فائدہ عام آدمی پارٹی کو ہوا؟ دہلی اسمبلی الیکشن میں ووٹوں کی تقسیم کچھ اسی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
اس سے پہلے 2015 کے اسمبلی الیکشن میں جو مسلم رائے دہندگان بڑی تعداد میں عآپ کے ساتھ ہوئے تھے، 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں انہوں نے کانگریس میں واپسی کی تھی۔
عام آدمی پارٹی کو اس بار62 کے آس پاس سیٹیں ملی ہیں جو پچھلی بارسے محض 5 سیٹ کم ہیں حالانکہ سیٹوں میں یہ کمی انتہائی معمولی ہی ہے۔ وہیں 2015 میں محض تین سیٹیں حاصل کرنے والی بی جے پی اس بار بھی کوئی خاص مظاہرہ کرتی دکھ نہیں رہی کیونکہ اس نے7 سیٹیں ہی جیتی ہیں۔
اس الیکشن میں کانگریس کی ایک بار پھرانتہائی خراب کارکردگی رہی ، پارٹی پھرسے صفرپرکلین بولڈ ہو گئی۔ پارٹی پھرکھاتہ نہیں کھول سکی،البتہ اس کا ووٹ فیصد کم ہو کرتقریبا نصف ہوگیا ہے۔