حافظ حسین احمد نے فضل الرحمن کے لیبیا اورعراق سے فنڈنگ لینے کا اعتراف کیا ہے۔فائل فوٹو
حافظ حسین احمد نے فضل الرحمن کے لیبیا اورعراق سے فنڈنگ لینے کا اعتراف کیا ہے۔فائل فوٹو

 پاکستان میں اس وقت کوئی حکومت نہیں۔مولانا فضل الرحمن

امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہاہے کہ محرومی کے احساس کو ختم کرنا ہے تو آئین پرعمل کرنا ہوگا،آئین اسلامی اور جمہوری ہے پھر بھی اسلام اورجمہوریت نہیں آسکی، مجھ پرآرٹیکل 6 لاگو کرنے کی بات کرنے والے شرم کریں۔

امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے تحفظ آئین پاکستان کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو شخص اپنی جان ہتھیلی پرلیے گھوم رہا ہے تم اسے ڈراتے ہو،اگرعدلیہ اور وکلا برادری آئین و قانون کو تحفظ نہ دے سکیں تو ملک کہاں جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ وہ کہتا تھا کہ میری پشت پر فوج ہے امریکا ہے یورپ ہے، لیکن جب یہ فقیر نعرہ لگا کر میدان میں اترا تو اس کی رعونت کو خاک میں ملادیا، پاکستان میں اس وقت کوئی حکومت نہیں، نہ کوئی سفارتی آداب ہیں اور نہ جمہوری اقدار، جس طرح امریکا کو ٹرمپ نصیب ہوا، بھارت  کو مودی بالکل ویسے ہی ہمیں عمران خان ملا۔

انہوں نے کہاکہ خارجہ پالیسی بھی تب مضبوط ہوگی جب معیشت مضبوط ہوگی،18 ویں ترمیم سے صوبوں کے اختیار میں اضافہ ہوا ہے، ملکی معیشت تباہ ہوگئی ہے لوگ ملک سے باہر جارہے ہیں۔

ان کا مزید کہناتھاکہ پاکستان میں سرمایہ کار کا سرمایہ غیر محفوظ ہوگیا ہے، ملک میں کارخانے بند ہورہے ہیں اورمہنگائی عروج پر جارہی ہے،حکومت نے سی پیک کو عملاً سرد خانے میں ڈال دیا ہے،حکومت نے جو حال بی آر ٹی کا کیا وہی سی پیک کا کر رہی ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر افغانستان میں کوئی معاہدہ ہوا ہے تو وہ معاہدہ وہاں کے لوگوں نے کیا کیوں کہ ان کا اختیار ہے ہمیں افغانستان میں امن کے عمل کی حمایت کرنی چاہیے، پاکستان کے لیے پرامن افغانستان ضروری ہے، ہم کسی صوبے کی تحریک کے محرک نہیں۔

دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام(ف) کے قائد مولانا فضل الرحمن کی جان کو شدید خطرہ ہے اس لئے وہ اپنی سرگرمیاں محدود کرکے اپنے ساتھ اور گھر پر سیکیورٹی کا انتظام کریں“ اس بات کا انکشاف ڈیرہ اسماعیل خان پولیس کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کو جاری کردہ ایڈوائزری نوٹس میں کیا گیا ہے۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ڈیرہ کی جانب سے ارسال کردہ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ مولانا فضل الرحمن دہشت گردوں کے نشانہ پر ہیں اس لیے ان کی جان کو خطرہ ہے چنانچہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نہ صرف اپنی سرگرمیاں اور نقل و حمل محدود بلکہ انہیں خفیہ رکھیں۔