سپریم کورٹ نے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نقل و حرکت سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران حکم دیا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر سے ان کے وکلا کی ملاقات کے دوران سیکیورٹی اداروں اور اٹارنی جنرل آفس کا کوئی بھی نمائندہ موجود نہیں ہو گا۔
جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے بدھ کے روز ڈاکٹر عبدالقدیر کی نقل وحرکت سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وکیل توفیق آصف نے عدالت کو بتایا کہ اس درخواست سے متعلق اُنھوں نے اپنے مؤکل سے کچھ ہدایات لینی ہیں لیکن ان کی سکیورٹی پر مامور خفیہ اداروں کے اہلکار ان سے ملاقات نہیں کروانے دے رہے۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید نے عدالت کو بتایا کہ کچھ دیر میں وکیل صاحب کی ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملاقات کروا دیتے ہیں جس پر ڈاکٹر عبدالقدیرکے وکیل نے جواب دیا کہ ان کے مؤکل کیسے آزاد شہری ہیں کہ ان سے ملاقات کے لیے وفاقی حکومت سے اجازت لینا پڑتی ہے۔
عدالتی حکم پر ایٹمی سائنس دان کو سخت سکیورٹی میں ججز گیٹ کے ذریعے سپریم کورٹ لایا گیا اور اُنھیں عدالت میں پیش کرنے کی بجائے رجسٹرار آفس میں بٹھایا گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ان کے وکلا نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس میں ملاقات کی تو اس دوران سیکیورٹی ادارے کے اہلکار بھی موجود تھے۔
اٹارنی جنرل نے ملاقات کروانے کے بعد عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر قدیر سے ان کے وکلا کی ملاقات کروا دی گئی ہے۔ جس پر وکیل توفیق آصف نے عدالت کو بتایا کہ ان کی اپنے مؤکل سے صرف سلام دعا ہوئی ہے جبکہ درخواست کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی کیونکہ وہاں پر خفیہ اور سکیورٹی اداروں کے اہلکار بھی موجود تھے۔
اس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا ایک وکیل کو اپنے مؤکل سے علیحدگی میں ملاقات کی اجازت بھی نہیں ہے۔
اس موقع پر ایڈشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے عدالت کو بتایا کہ ان اہلکاروں کی وہاں پر ڈیوٹی تھی تاہم اگلی ملاقات میں سکیورٹی اہلکار نہیں ہوں گے بلکہ وہ خود موجود ہوں گے۔
جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ وہ وکیل اور مؤکل کے درمیان ہونے والی ملاقات میں کیوں موجود ہوں گے؟
عدالت نے حکم دیا کہ ڈاکٹر قدیرکے ساتھ ان کے وکلا کی ملاقات میں کوئی اہلکار موجود نہیں ہو گا۔
دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا کہ سیکیورٹی اہلکار عبدالقدیر خان کو ان کی رہائش گاہ پر لے جا چکے ہیں، جس پر عدالت نے وکلا کی ملاقات ڈاکٹر عبدالقدیر سے ان کی رہائش گاہ پر کروانے کا حکم دیا۔اس درخواست کی مزید سماعت 14 مئی تک ملتوی کردی گئی ۔
واضح رہے کہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا اور ان کی نقل و حرکت پر پابندی کے ساتھ ساتھ کسی کو بھی ان سے ملنے کی اجازت نہیں۔
سابق فوجی صدر کی حکومت کے بعد ملک میں دو جمہوری حکومتیں اپنی مدت مکمل کر چکی ہیں اور اس عرصے کے دوران بھی ڈاکٹر عبدالقدیر کی نقل وحرکت بہت محدود رہی۔