اٹارنی جنرل آفس کو بھی عدالتی فیصلے کی نقل موصول ہو گئی ہے۔فائل فوٹو
اٹارنی جنرل آفس کو بھی عدالتی فیصلے کی نقل موصول ہو گئی ہے۔فائل فوٹو

کس طرح پتہ چلا لندن میں جائیدادیں ہیں؟۔سپریم کورٹ

صدارتی ریفرنس کیخلاف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ سوال یہ ہے کس طرح سے پتہ چلا کہ لندن میں جائیدادیں ہیں؟،آﺅ جائیدادیں ڈھونڈیں،آﺅ جائیدادیں ڈھونڈیں کااختیارکہاں سے حاصل کیاگیا؟،صحافی نے کوئی آرٹیکل نہیں لکھا جس کاوہ سورس چھپائے ،صحافی آرٹیکل یا خبر دے تو سورس نہیں پوچھ سکتے،میری تشویش یہ ہے شواہد کی سرچ کیسے کی گئی۔

نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کیخلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت جاری ہے،جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں 10 رکنی لارجر بنچ سماعت کررہا ہے،حکومتی وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ تشددکے بغیرحاصل مواد قابل قبول دستاویز ہیں،امریکامیں چوتھی ترمیم کے مطابق شواہد کی تلاش قانونی ہے،پاکستان اور بھارت میں امریکا کی چوتھی ترمیم جیسی مثال نہیں۔

سٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آئین آزادانہ نقل و حرکت،وقار،ذاتی عزت وتکریم کا تحفظ فراہم کرتا ہے،ہمارے ملک میں ایف بی آر، ایف آئی اے جیسے دیگر ادارے موجود ہیں ،آپ کہہ رہے ہیں میری جاسوسی ہو سکتی ہے میں گالف کلب جاتا ہوں میری تصاویر لی جاتی ہیں ، یہ تو ایسے ہی ہوگاجمہوریت سے فاشزم کی طرف بڑھاجائے ۔

حکومتی وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے کہاکہ میں فاشزم کی بات نہیں کررہایہاں بات شواہد کے اکٹھا کرنے کی ہو رہی ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ اس سے غرض نہیں پبلک ڈومین میں جائیدادیں پڑی ہیں یا نہیں ،ان جائیدادوں کو ڈھونڈے کے اختیارات کہاں سے لئے گئے ؟۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ سوال یہ ہے کس طرح سے پتہ چلا کہ لندن میں جائیدادیں ہیں؟،آﺅ جائیدادیں ڈھونڈیں،آﺅ جائیدادیں ڈھونڈیں کااختیار کہاں سے حاصل کیاگیا؟،فروغ نسیم نے کہاکہ صحافی کی طرف سے معلومات آگئیں تو اس کی حقیقت کاپتہ چلایا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ صحافی نے کوئی آرٹیکل نہیں لکھا جس کاوہ سورس چھپائے،صحافی آرٹیکل یا خبر دے تو سورس نہیں پوچھ سکتے ،میری تشویش یہ ہے شواہد کی سرچ کیسے کی گئی ۔