اسلام آباد: حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود حکومت نے 8 بلز منظور کرا لیے۔
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت شروع ہوا تو اپوزیشن کے 34 جبکہ حکومت کے 18 اراکین ایوان سے غیر حاضر رہے جس کے باعث اپوزیشن کی عددی اکثریت اقلیت میں بدل گئی۔ اجلاس کے دوران سب سے پہلے مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان کی جانب سے اسلام آباد وقف املاک بل 2020 کی تحریک پیش کی گئی۔ اپوزیشن کے مطالبے پر رائے شماری کرائی گئی تو اپوزیشن کو 10 ووٹوں سے شکست ہوئی، تحریک کی حمایت میں 200 جبکہ مخالفت میں 190 ارکان نے ووٹ دیا۔
اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی نے پوائنٹ آف آرڈر پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا اسپیشل اسسٹنٹ اور ایڈوائزر کے حوالے سے فیصلہ واضح ہے، ڈاکٹر بابر اعوان ایڈوائزر ہیں وزیر نہیں، انہوں نے بل کیسے پیش کیا؟اس کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ مشیروں پر صرف ووٹ دینے کی قدغن ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا جو حوالہ دیا گیا، اس میں ایسی بات کہیں نہیں لکھی۔ انہوں نے چیلنج کیا کہ میاں رضا ربانی نے جس فیصلے کا حوالہ دیا، لکھا ہوا بتا دیں۔ بابراعوان ایڈوائزر ہیں، وہ بل پیش کر سکتے ہیں۔
اس کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اسلام آباد وقف املاک بل 2020 کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ اپوزیشن اراکین نے بڑی تعداد میں اسپیکر ڈائس کے قریب پہنچ گئے اور شدید نعرہ بازی شروع کردی۔ اپوزیشن کے ایک درجن کے قریب ارکان نے اسپیکر ڈائس کا گھیرائو کر لیا۔
مرتضیٰ جاوید عباسی نے بل کی کاپی پھاڑ کر اسپیکر کی طرف پھینک دی، اپوزیشن کے شدید احتجاج اور مطالبے پر اسپیکر نے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو فلور دے دیا جس پر شاہ محمود قریشی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ جس کی ترمیم ہے، اسے ہی بات کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اگر بلاول بھٹو زرداری کی کوئی ترمیم ہے تو ضرور بات کریں، بلاول بھٹو زرداری کو موقع فراہم نہ کرنے پر اپوزیشن ارکان نے اپوزیشن لیڈر کو فلور دینا کا مطالبہ کردیا۔ اپوزیشن لیڈر کو فلور دینے پر حکومتی ارکان نے اعتراض کیا۔
بابر اعوان نے قومی اسمبلی کا رولز 131 پڑھ کر سنایا اور کہا کہ کسی بھی بل کی منظوری میں ترمیم جمع کرانے والے رکن کے علاوہ کوئی اور بات نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد اینٹی منی لانڈرنگ دوسرا ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا گیا۔ شاہد خاقان عباسی نے اس کے خلاف ترمیم پیش کی اور کہا جس طرح اجلاس چلایا جا رہا ہے، اس سے ہاؤس کی عزت نہیں ہو رہی۔ ہمیں بولنے کا موقع نہیں دیا جارہا۔ بل سے متعلق ہماری 10 سے 12 ترامیم ہیں۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو بات کرنے کا موقع نہ دینے کیخلاف حزب اختلاف کے ممبرز نے ایوان سے واک آؤٹ کر دیا جس کے بعد حکومت کے لیے قانون سازی کی راہ مزید ہموار ہوگئی، اینٹی منی لانڈرنگ دوسرا ترمیمی بل کی منظوری کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ ترمیمی بل اور سرویئنگ اینڈ میپنگ ترمیمی بل بھی مشترکہ اجلاس سے منظور کرا لیا گیا۔
بعد ازاں ضمنی ایجنڈے کے ذریعے انسداد دہشت گردی ترمیمی بل، پاکستان میڈیکل کمیشن بل، پاکستان میڈیکل ٹربیونل بل اور اسلام آباد معذوروں کے حقوق کا بل بھی کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔