کراچی کی انسداد دہشتگردی عدالت نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ سنادی گیا۔فائل فوٹو
کراچی کی انسداد دہشتگردی عدالت نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ سنادی گیا۔فائل فوٹو

سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ 22ستمبرتک موخرکردیا گیا

8 سال قبل کراچی کی بلدیہ فیکٹری میں زندہ جل جانے والے بے گناہوں کے قتل کے مقدمہ کا فیصلہ 22ستمبر تک موخرکردیا گیا،اس سے قبل اعلان کیا گی اتھا کہ فیصلہ آج سنایا جائے گا۔ کراچی کی انسداد دہشتگردی عدالت نے 2 ستمبرکو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

انسداد دہشتگردی عدالت (اے ٹی سی )میں سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کی سماعت ہوئی ،رحمان بھولا اور زبیر چریا کو جیل سے عدالت میں پیش کیا گیا،رﺅف صدیقی ، عمر حسن قادری ، ڈاکٹر عبدالستار سمیت دیگر ملزم عدالت میں پیش ہوئے جبکہ بلدیہ فیکٹری کیس میں حماد صدیقی اور علی حسن قادری اشتہاری ہیں ،اس موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے ،غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بند کردیاگیا تھا۔

لزمان علی حسن ،ادیب اور ڈاکٹرعبدالستار کی جانب سے فیصلہ موخر کرنے کی درخواست دائر کی گئی ،ملزمان نے مالکان سے 5 کروڑ روپے وصول کرنے سے متعلق اصل ریکارڈ پیش کرنے کی مہلت طلب کرتے ہوئے فنانس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اصل ریکارڈ پیش کردیا۔

درخواست میں کہاگیا ہے کہ مالکان سے معاملہ نمٹانے کیلئے 5 کروڑ روپے لینے کاالزام ہے ، فیکٹری مالکان کیساتھ کاروباری معاملہ تھا، بینک کے ذریعے یہ رقم ہمیں منتقل کی گئی تھی ،انسداد دہشتگردی عدالت نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ 22 ستمبر تک موخر کردیا۔

بعد میں ایڈیشنل ڈسرکٹ اینڈ سیشن جج ویسٹ عبداللہ چنہ نے فیکٹری مالکان کی ضمانت مسترد کر دی، پولیس نے مقدمے کا چالان پیش کیا تو گواہوں کی تعداد 15 سو تھی، لگتا تھا کہ پولیس مقدمہ کا فیصلہ نہیں چاہتی۔

2013 میں سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج زاہد قربان علوی کی سربراہی میں بننے والے جوڈیشنل کمیشن نے آگ کی وجہ شارٹ سرکٹ اور متعلقہ اداروں کی غفلت کو قرا دیا۔ کمیشن کی رپورٹ کے بعد حکومتی سطح پر ہلچل ہوئی اور مقدمے میں تبدیلیاں آنی شروع ہوگئیں۔

پولیس نے دوسرا چالان پیش کیا تو مقدمے میں قتل کی دفعہ 302 خارج کرنے کے ساتھ مقدمے کے گواہوں کی تعداد آدھی کر دی گئی، 2014 میں مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نوشابہ قاضی کی عدالت میں منتقل کر دیا گیا۔ فیکٹری مالکان ضمانت کے بعد عدالتی اجازت سے بیرون ملک چلے گئے۔

سال 2015 شروع ہوا تو صوبائی حکومت نے ڈی آئی جی سلطان خواجہ کی سربراہی میں نو رکنی جے آئی ٹی بنا دی، اسی دوران سندھ رینجرز کی ایک رپورٹ نے مقدمہ میں طوفان برپا کر دیا۔

6 فروری 2015 کو رینجرز رپورٹ میں بتایا گیا کہ ناجائز اسلحہ کیس کے ملزم رضوان قریشی نے انکشاف کیا کہ بلدیہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی، آگ لگانے والا کوئی اور نہیں بلکہ ایم کیوایم تھی۔ مقدمے کے ایک اور چالان میں ملزمان حماد صدیقی، رحمان بھولا، زبیر عرف چریا کا اضافہ کر دیا گیا۔

2016 میں دہشت گردی کی دفعات کے ساتھ مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت منتقل کر دیا گیا۔ حماد صدیقی، رحمان بھولا کے ریڈ وارنٹ جاری ہوئے، ملزم زبیر چریا سعودیہ، رحمن بھولا تھائی لینڈ میں انٹر پول کی مدد سے گرفتار ہوئے، دسمبر 2016 میں پاکستان لایا گیا۔

رحمان بھولا نے عدالت کے سامنے بیان میں کہا کہ 20 کروڑ روپے بھتہ نہ ملنے پر اس نے زبیر چریا کے ذریعے آگ لگوائی، کارروائی حماد صدیقی اور پارٹی قیادت کی ایماء پر کی گئی، ملزم نے یہ بھی کہا معاملہ دبانے کے لئے حماد صدیقی، رﺅف صدیقی نے مالکان سے رقم وصول کی۔

پولیس نے ایک اور چالان میں رﺅف صدیقی کو سہولت کار ملزم ظاہر کیا۔ جے آئی ٹی رپورٹ منظرعام پر آئی تو مقد مے کا ایک اور چالان پیش ہوا، اس میں پولیس نے رﺅف صدیقی کو بے گناہ قرار دے دیا لیکن عدالت نے رپورٹ مسترد کر دی جس پر پولیس نے ایک اور چالان پیش کر کے رﺅف صدیقی کو ملزم بنا دیا۔

رحمن بھولا اور زبیر چریا نے عدالت کے سامنے قیادت کی ایما پر آگ لگانے کا اعترا ف کیا لیکن جنوری 2019 میں اپنے بیان سے مکر گئے، جبکہ خوف سے کئی وکلاء نے مقدمے کی پیروری چھوڑی دی، عدالتیں تبدیل ہوتی رہیں، گواہ منحرف ہوتے رہے لیکن رینجرز کے سپیشل پبلک پراسیکوٹر ساجد محبوب شیخ مقدمے کی پیروی کرتے رہے۔

استغاثہ نے سات سو اڑسٹھ گواہوں کی فہرست عدالت میں جمع کرائی تھی۔ چارسو گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے، تین سو چونسٹھ گواہوں کے نام نکال دیئے گئے۔ مقدمہ میں رحمان بھولا اور زبیر چریا گرفتار ہیں۔ متحدہ رہنما روف صدیقی، علی محمد ارشد محمود، فضل احمد جان، شاہ رخ لطیف، عمر حسن قادری اورڈاکٹرعبدالستار ضمانت پر ہیں۔

متحدہ کے حماد صدیقی اور علی حسن قادری مفرور ہیں، مقدمہ میں تاخیر کی وجہ مرکزی ملزم حماد صدیقی کی عدم گرفتاری، جے آئی ٹی رپورٹ پر عمل درآمد نہ ہونے اور ملزموں کے تاخیری حربے رہے۔