نوازشریف کے ویزے میں مزید توسیع سے برطانوی محکمہ داخلہ نے معذرت کی ہے۔فائل فوٹو
نوازشریف کے ویزے میں مزید توسیع سے برطانوی محکمہ داخلہ نے معذرت کی ہے۔فائل فوٹو

’’بلوچستان حکومت گرانے میں عاصم سلیم باجوہ کا کردار‘‘

سابق وزیراعظم نوازشریف نے آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آصف زرداری صاحب جناب بلاول بھٹو زرداری صاحب ، جناب مولانا فض الرحمن ، شہبازشریف صاحب ، جناب محمود خان اچکزئی صاحب ، محترم ڈاکٹر عبدامالک صاحب ، سجاد ساجد میر صاحب ، آفتا ب احمد خان ، محسن خان داوڑ ، جمالادین صاحب ، جناب اوینس شاہ نورانی صاحب ،نہایت شرکاکانفرنس اور محترم خواتین حضرات کو سلام کیا ۔

انہوں نے اپنی تقریرکا آغازکرتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری آپ کا شکریہ ، اللہ آپ کو صحت اور تندروستی عطا فرمائے ، میری بہت سی دعائیں آپ کیلئے بھی ہیں اوربلاول کیلیے بھی ،بلاول سے پرسوں بات کر کے مجھے بہت خوشی ہوئی ، بہت اچھی اچھی باتیں ہوئیں، جس پیار محبت سے انہوں نے مجھ سے بات کی میں کبھی نہیں بھولوں گا ۔

میں کانفرنس کے میزبان جناب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹوز رداری ،مولانا فضل الرحمن اورتمام معزز قائدین کا شکرگزارہوں کہ مجھے اس کانفرنس میں اپنی بات کہنے کا موقع فراہم کیا ،میں وطن سے دور ہوتے ہوئے بھی اچھی طرح جانتا ہوں کہ وطن عزیز کن حالات سے گزر رہاہے اورعوام کن مشکلا ت کا شکار ہے ،یہ کانفرنس نہایت اہم موقع پر منعقد ہوئی ہے ، اسے فیصلہ کن موڑ سمجھتا ہوں ، پاکستان کی خوشحالی اور صحیح معنوں میں ایک جمہوری ریاست بنانے کیلیے ضروری ہے کہ ہم ہر طرح کی مصلحت چھوڑکراپنی تاریخ پر نظر ڈالیں اور بے باک فیصلے کریں ، آج نہیں کریں گے تو پھرکب کریں گے ۔

میں مولانا فضل الرحمن کی سوچ سے پوری طرح متفق ہوں ، روایتی طریقوں سے ہٹ کر اس کانفرنس کو بامقصد بنانا ہو گا ورنہ قوم کو مایوسی ہو گی ، ابھی جو ٹرینڈ آف زرداری نے سیٹ کیاہے اسے ہی آگے لے کر چلنا ہے ، 3 برس سے پاکستان کو کن مسائل کا سامنا ہے،ان کی بنیادی وجہ ایک ہے، میں اپنے تجربے سے بول رہاہوں ، پاکستان کی خدمت میں کافی تجربہ ہے ، میں سمجھتاہوں کہ پاکستان کو جمہوری نظام سے مسلسل محروم رکھا گیاہے ، جمہوریت کی روح عوام کی رائے ہوتی ہے ، یعنی ملک کا انتظام وہ لوگ چلائیں جنہیں عوام اپنی ووٹوں کی اکثیریت سے یہ حق دیں ۔

پاکستان کے عوام کی طرف سے استعمال کیا جانے والا اختیارایک مقدم امانت کا درجہ رکھتاہے،آئین کے مطابق ہمارے جمہوری نظام کی بنیاد عوام کی رائے پر ہے ، جمہوریتوں کا یہی اصول ہے ، جب جمہوریت کی اس بنیاد پر ضرب لگتی ہے اور ووٹ کی عزت کو پامال کر دیا جاتا ہے تو سارا جمہوری عمل بالکل بے معنی اور جعلی ہو کر رہ جاتا ہے ، جب عوام کی مقدس امانت میں خیانت کی جاتی ہے ، اور انتخابی عمل سے پہلے یہ طے کر لیا جاتاہے کہ کس کو جتواناہے اورکس کو ہروانا ہے ، انتخابات میں دھاندلی سے مطلوبہ نتائج حاصل کر لیے جاتے ہیں اور رہی سہی کثر حکومت سازی کیلیے جوڑتوڑ میں نکال دی جاتی ہے ۔

تو اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ کس کس طرح سے عوام کو دھوکہ دیاجاتاہے اور عوامی مینڈینٹ کیسے چوری کیا جاتا ہے ، بدقسمتی سے پاکستان کو اس طرح کے تجربات کی لیبارٹری بنا کر رکھ دیاہے ، کبھی عوام کی نمائندہ حکومت بن گئی تو اسے سازش سے پہلے بے اثر پھر فارغ کر دیا جاتاہے ،اس میں یہ بھی پرواہ نہیں کی جاتی ہے کہ اس سے ریاستی ڈھانچہ کمزور ہو گا اورجگ ہنسائی ہو گی ، یہ بات پاکستان کے بچے بچے کی زبان پر ہے 73 سالہ تاریخ میں ایک بار بھی کسی وزیراعظم کو اپنی پانچ سالہ آئنہ مدت پوری نہیں کرنے دی گئی، ہر ڈکٹیٹرنے اوسطاً9 سال غیر آئنی طور پر حکومت کی جبکہ وزیراعظم کو اوسطا دو سال سے زائد کا عرصہ شائد ہی ملا ہے ، جنرنیلوں کے مہم جوئی کو رونے کیلئے 1973 کے آئین میں آرٹیکل چھ ڈالا گیا لیکن اس کے بعد بھی 20 سال جرنیلی آمریت کے نذرہو گئے ۔

خواتین و حضرات جب ایک ڈکٹیٹر کو آئن شکنی پرعدالت کے کٹہرے میں لایا گیا تو آپ نے دیکھا کہ کیاہوا ،مجھے یہ کہتے ہوئے دکھ ہوتاہے کہ جس طرح ہر مارشل لاءکو عدالت نے جائز قرار دیا ،ڈکٹیٹر کو آئین سے کھلواڑ کرنے کا اختیار دیا ،اورتین تین سالوں کیلئے دیا ،اسی طرح دو بار آئین توڑ نے والے کو بریت کا سرٹیفکیٹ بھی عدالتوں نے دیا ، اسے ایک گھنٹے کیلئے بھی جیل میں نہ ڈالا جا سکا ۔

پوری داستان ہے میرے پاس جو کسی وقت سناﺅں گا ، کہ کہاں سے کہاں لے گئے جبکہ آئین پر عمل کرنے والے ابھی تک کٹہروں میں کھڑے ہیں اور جیلوں میں پڑے ہیں ، 33 سال کا عرصہ فوجی آمریت کی نظر ہو گیا ، ایک ڈکٹیٹر پر مقدمہ چلا ، خصوسی عدالت بنی ، کارروائی ہوئی اورقانون کے تحت سزا سنائی گئی لیکن کیا ہوا ؟ میں پوچھنا چاہتاہوں کیا ہوا ،کیا مجرم گرفت میں آ گیا ، کیا سزا ملی ، یہ سب تو دور کی بات، ہوا تو یہ کہ عدالت ہی سرے سے غیر آئنی قرار دے دی گئی ۔

نواز شریف نے کہاکہ  پاکستان میں یہ کوئی ان ہونی بات نہیںے ،کسی ڈکٹیٹر کے بڑے سے بڑے جرم پر بھی کوئی کارروائی نہ ہو اوراگر ہوبھی جائے تو کوئی اسے چھو بھی نہ سکے ،اگر کوئی فیصلہ آ بھی جائے توصرف سزاہی نہیں بلکہ عدالت کو بھی ہوا میں اڑا دیاجائے لیکن آخر کب تک ، اس کے برعکس ان سیاستدانوں کو دیکھیے جو عوام کے ووٹوں سے وزیراعظم بنے ، کوئی قتل ہو گیا ،کوئی پھانسی چڑھ گیا ، کوئی ہائی جیکر بن گیا ، چور اور غدار قرار دیدیا گیا ، کسی کو جلا وطن کر دیا گیا اور کوئی عمر بھر کیلیے نااہل ہو گیا ۔

ان کے گناہ اور سزائیں ختم ہونے میں آ رہی نہیں رہی، وہ جھوٹے مقدمات میں اپنے ماﺅں اور بہنوں ، اپنی بیٹیوں کے ساتھ پیشیاں بھگت رہے ہیں ، دراصل یہ سلوک پاکستان کی عوام کے ساتھ کیا جارہاہے ،اور سزا بھی پاکستان کی عوام کو ہی مل رہی ہے ،آپ میں سے اکثر حکومت کا بھی تجربہ ہے ، آپ جانتے ہیں کہ عوام کی حمایت سے کوئی جمہوری حکومت بن جائے تو کس طرح اس کے ہاتھ پاﺅں باندھ دیے جاتے ہین اور عوامی نمائندوں کی تذلیل ہو تی ہے کس طرح کرادار کشی کا منظم سلسلہ شروع ہو جتاہے ، کس طرح قومی مفاد کے خلاف سرگرمی کی نشاندہی کرنے پر ملک دمشن قرار دے دیاجاتاہے ، خلاصہ یہ ہے کہ یہاں یا تو مارشل لا ہوتاہے یا پھر متوازی حکومت قائم ہو جاتی ہے۔

عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم نہ کرنے پر متوازی حکومت کا مرض ہی ہماری مشکلات کی اصل جڑ ہے ، یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری میں ہماری ساکھ ختم ہو کر رہ گئی ہے ،2018 کے انتخابات کے بعد متعدد ملکی اور غیر ملکی اداروں سے انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھائے گئے ، میں تو جیل میں تھا لیکن خبریں مجھے سب ملتی رہی ہیں ، بعض نے تو سیٹوں کی تعداد بھی بتائی جہاں دھاندلی کی وجہ سے نتائج تبدیل کر دیے گئے ، ان حلقوں کی اتنی تعداد ہے کہ اگر نتائج تبدیل نہ کیے جاتے تو بیساکھیوں پر کھڑی یہ حکومت کبھی بھی وجود میں نہیں آ سکتی ہے ،آج قوم کن حالات سے دوچار ہے ، اس کی بنیادی وجہ وہ لوگ ہیں جونہوں نے عوام کی رائے کے خلاف نااہل حکمرانوں کو ملک پر مسلط کیا ، انتخابات ہائی جیک کر کے اقتدار چند لوگوں کو منتقل کر دینا آئین شکنی اور بدیانتی ہے ، ہم چند روپوں کی خاطر ڈاکہ ڈالنے والوں کیلئے بڑی سزا کا تقاضہ کرتے ہیں لیکن عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا کتنا سنگین جرم ہے کسی نے سوچا ہے ؟

معزز خواتین حضرات کیا میں یہ پوچھ سکتاہوں کہ2018 کے انتخابت میں گھنٹوں آ ر ٹی ایس کیوں بند رکھا گیا ، گنتی کے دوران پولنگ ایجنٹس کو کیوں باہر نکال دیا گیا ،انتخابات میں دھاندلی کیوں کی گئی ، کس کے کہنے پر کی گئی ، کس کیلئے کی گئی ،اور کونسے مفادات کیلئے کی گئی ،اس میں سابق چیف الیکشن کمشنر اور سیکریٹری الیکشن کمشنر کو بھی جواب دینا ہو گا ،اور جو لوگ بھی دھاندلی کے ذمہ دار ہیں ان سب کو حساب دینا ہوگا۔

محترم قائدین جناب چیئرمین اس نااہل حکومت میں دو سالوں میں پاکستان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیاہے ، اس کا کوئی اندازہ کر سکتاہے ، پاکستان کی معیشت تباہ ہو چکی ہے ،یا جو کہتے ہیں کہ معیشت تباہ ہو رہی ہے ، بات اس سے بہت آگے چلی گئی ہے پاکستان کی معیشت تباہ ہو چکی ہے ،پانچ اعشایہ کی شرح ترقی سے آگے بڑھتاہو ا ملک صفر سے بھی نیچے جا چکاہے ، پاکستانی روپیہ افغانستان اور نیپال سے بھی نیچے گر چکاہے ، جس مہنگائی پر ہم نے مکمل قابو پا لیا تھا وہ آج کئی گنا بڑھ چکی ہے ، غریب متوسط گھرانوں کیلیے دو وقت کی روٹی بھی محال ہو چکی ہے۔

بجلی اور گیس کے بل عام آدمی پر بم بن کر گتے ہیں ، کبھی اندازہ کیجئے ، پچھلے دو سالوں میں ڈیڑھ کروڑ لوگ غربت کی سطح سے نیچے جا چکے ہیں ، ایک کروڑ بیس لاکھ لوگوں کا روزگار چھین چکے ہیں ،نالائق حکومت نے ہر معاملے پر یو ٹرن لیا ہے ، سی پیک سخت کنفیوثن کا شکار ہے ،قرضے ختم کر دینے کا دعویٰ کرنے والو ں نے دو سال میں قرضوں میں اتنا اضافہ کر دیاہے کہ پچھلے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں ، ایک بھی ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں ہوسکا ، وہ پاکستان جس کے بارے میں ادارے یہ پیشگوئی کر رہے تھے کہ اگلے چند سالوں میں یہ G20 میں شامل ہو جائے گا آج معاشی طور پر مفلوج ہو کر رہ گیاہے ، اگر پاکستان میں ووٹ کو عزت نہ ملی ،اگر قانون کی حکمرانی نہ آئی تو یہ معاشی طور پر مفلوج ہی رہے گا ، ایسے ممالک اپنے دفاع کے قابل بھی نہیں رہتے ، خاص طور پر اس وقت جب آپ کے دشمن آپ کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا رہے ہوں ، ملک بدامنی اور افراتفری کا گڑھ بن چکا ہے ،آئے دن پریشان کن خبریں آتی رہیتی ہیں.

سیالکوٹ موٹروے پر قوم کی بیٹی کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ دل دہلا دیتاہے ، مزید تکلیف دہ چیز وہ پولیس افسر کا بیان ہے ،اس کا بڑا لمیہ یہ ہے کہ حکومت کی تمام تر ہمدردیاں قوم کی بیٹی کی بجائے اپنے چہیتے پولیس افسر کے ساتھ ہیں ، جناب چیئرمین پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹابڑا ملک ہے ، جو جغرافیائی اعتبار اہم ہے ، پاکستان کی خارجہ پالیسی بنانے کا اختیار عوامی نمائندوں کے پاس ہونا چاہیے ، ہماری خارجہ پالیسی ملک مفاد سے متصادم نہیں ہونی چاہیے ۔

ہزاروں جانیں قربان کرنے کے باوجود کبھی فافٹ اور کبھی اور کسی کٹہرے میں کھڑے شرمناک صفائیاں پیش کر رہے ہوتے ہیں ، کشمیری عوام پر مظالم کا سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے ،مگر کشمیر کو ہڑپ کرنے کا حوصلہ آج تک کسی کا نہیں ہوا ، بھارت نے ایک غیر نمائندہ اور غیر مقبول پاکستانی حکومت دیکھ کر کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا ہے اور ہم احتجاج بھی نہیں کر سکے ، دنیا تو کیا اپنے دوستوں کی حمایت بھی نہ حاصل کر سکے ، آخر ایسا کیوں ہوا؟ کیوں ہم عالمی تنہائی کا شکار ہو گئے ،کیوں آج ہماری بات دنیا سننے کیلiے تیار نہیں.

ہمارے دیرینہ اور شانہ بشانہ کھڑے ہونے والے ساتھی ممالک کیوں دور ہو گئے ، شاہ محمود قریشی نے کس منصوبے کے تحت وہ بیانات دیئے جن سے ہماری بہترین دوست سعودی عرب کی دل شکنی ہوئی ہے، او آئی سی ایک اہم ادارہ ہے جس کی افادیت طے شدہ ہے ، پاکستان او آئی سی کے بانی ممالک میں شمار ہوتاہے ،پاکستان کو دیگر ممالک سے مل کر او آئی سی کو مضبوط کرنا چاہیے ، ہمیں خودسوچنا چاہیے کہ ہمارے قریبی ممالک بھی ہم پراعتماد کرنا چھوڑ گئے ہیں ، یہ بہت فکر کی بات ہے ، لمحہ فکریہ ہے ، اس پر ضرورغور ہونا چاہیے ، لیکن کیا اس طرح کی حکومت ہو گی تو پھر یہی کچھ ہو گا، اور خارجہ پارلیسی کو بچوں کا کھیل بنا کر رکھ دیاگیاہے.

خواتین و حضرات وقت آ گیاہے کہ ان سوالوں کے جواب لیے جائیں ، اگر اس کانفرنس مین پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے دو سابق وزیراعظم موجود ہیں تو وہ جانتے ہیں کہ سول حکومت کے گرد کس طرح کے شکنجے کس دیئے جاتے ہین کس طرح ایسی کارروائیاں ہو جاتی ہیں جن کا وزیراعظم کو علم ہی نہیں ہوتاہے ، خود محترم زرداری صاحب کو بھی اس کا علم ہے ، نہ وزیراعظم نہ صدر کو علم ہوتاہے اور پھر ان کارروائیوں کی بھاری قیمت ریاست کو ادا کرنی پڑتی ہے ۔

چار سال پہلے اکتوبر 2016 میں قومی سلامتی کے امور پر بحث کے دوران جب توجہ دلائی گئی کہ ہمارے دوستوں سمیت دنیا بھر کے ممالک کو ہم سے شکایت ہے ، ایسے اقدامات کرنے چاہیے کہ دنیا ہماری طرف انگلیاں نہ اٹھائے تو اسے ڈان لیکس بنا دیا گیا ۔ ایجنسیوں کے ااہلکاروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنی، ثبوت تو کسی کے خلاف کچھ نہ ملا تو پراپیگنڈہ مشینوں کے ہاتھوں ہمیں اور مجھے بھی غدار اور ملک دشمن ٹھہرا دیا گیا ، وزیر اعظم کے احکامات کو ایک ماتحت ادارے کے اہلکار کی کی گئی ٹویٹ میں مسترد کا ٹائٹل ادا کر دیا گیا ، سی پیک کو ناکام بنانے کا سلسلہ 2014 میں اس وقت شروع ہوا جب دھرنوں کے ذریعے چین کے صدر کا دورہ ملتوی کر دیا گیا ، چین ہمارا مخلص دوست ہے جو پاکستان کے ساتھ ہر موقع پر کھڑا رہا ،پاکستان اور چین کے تعلقات مزید مستحکم کرنے میں اور سی پیک کے حوالے سے صدر شی جنگ پنگ کا کردار قابل تعریف ہے ، سی پیک کا عظیم منصوبہ حکومتی نااہلی کی نذر ہو رہاہے ۔سی پیک کے ساتھ پشاور کی بی آر ٹی جیسا سلوک ہو رہاہے جہاں کئی سال بیت گئے ، منصوبے سے کئی گنا زیادہ رقم غر ق ہوق چکی ہے ، کبھی بسوں میں آ گ لگ جاتی ہے تو کبھی بارش ناقص تعمیر کا پول کھولتی ہے ۔

سچی بات تو یہ ہے کہ ایک ڈکٹیٹر کے بنائے ہوئے اس اداروے کو برقرار رکھنا ہماری غلطی تھی ، ہم نے نہیں سوچا تھا کہ یہ ادارہ اس حد تک گر سکتاہے ، یہ ادار ہ نہیں بلکہ اندھے حکومتی انتقام کا آلہ کار بن چکا ہے ، اس ادارے کا چیئرمین جاوید اقبال اپنے عہدے اور اختیارا ت کا نازیبا استعمال کرتے ہوئے پکڑا جاتاہے لیکن کوئی انکوائری نہیں ہوتی ہے نہ ہی ایکشن لیا جاتاہے اور نہ ہی شفافیت کے دعویدار عمران خان پر کوئی جون رینگتی ہے ، اس کے باوجود یہ شخص ڈھٹائی سے اپنے عہدے پر براجمان اور انتقام کے ایجنڈے پر دھڑلے سے عمل کرتاہے لیکن بہت جلد ان سب کا یوم حساب آئے گا۔ بین الاقوامی ادارے اور ہمارے اعلیٰ عدالتیں نیب کے منفی کردار پر بڑی واضح رائے دے چکی ہیں ،یہ ادارہ بد بو دار ہو چکا ہے ، یہ مکمل طور پر اپنا جواز کھو چکا ہے . اپوزیشن کے لوگ اس کا نشانہ بنے ہوئے ہیں جو اپنے گھر کی خواتین کے ساتھ نیب کے دفتروں اور عدالتوں اور جیلوں میں رل رہے ہیں جو نیب سے بچتا ہے ،اسے ایف آئی اے سپرد کر دیا جاتا ہے ،جو ایف آئی اے سے بچے اینٹی نارکوٹکس کے ہتھے چڑھ جاتاہے جو وہاں سے بچ جائے اسے جھوٹے مقدمے میں پکڑ لیا جاتاہے۔

2018 میں سینٹ کے انتخابات سے قبل ایک سازش کی گئی ، اس مذموم سازش کے ذریعے بلوچستان کی صوبائی حکومت گرا دی گئی ، اس کا مقصد سینیٹ کے انتخابات میں سامنے آیا ، اس سازش کے کرداروں میں لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ، جو وہاں کے کور کمانڈر تھے ، ان کا نام بھی آتاہے ،یہ وہی جنرل عاصم ہیں جن کی خاندان کی بے پناہ دولت اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اثاثوں کی تفصیلات پوری قوم کے سامنے آ چکی ہے ان حقائق کو نہ صرف چھپایا گیابلکہ مبینہ طور پر ایس ای سی پی کے سرکاری ریکارڈ میں ردو بدل بھی کی گیا ، اربوں کے یہ اثاثے کہاں سے بن گئے ، یہ پوچھنے کی کسی کی مجال نہیں ہے ، میڈیا پر خاموشی چھا گئی ۔نا نیب حرکت میں آئی اور نہ ہی کسی عدالت نے نوٹس لیا ، نہ کوئی جے آئی ٹی بنی اور نہ کوئی ریفرنس دائر ہوا۔ نہ کوئی مانٹیرنگ جج بیٹھا نہ کوئی پیشی ہوئی ، نہ کوئی سزا ہوئی ، اندازہ لگائیں ، احتساب کا نعرہ گلانے اور این آر او نہ دینے کے دعوے کرنے والے عمران خان نے بھی اثاثوں کے ذرائع پوچھنے کی جرات نہ کی بلکہ انہیں ایمانداری کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا گیا ۔میڈیا پر پہلی بار اس سکینڈل کا ذکر اس وقت ہوا جب عاصم سلیم تردید کیلئے خود ٹی وی پر آئے ، اس حکومت کے دو سالوں میں یہ کوئی پہلا مالی بد عنوانی کا سکینڈل نہیں ، یہاں کئی انتہائی سنگین سکینڈل سامنے آ چکے ہین جن کا نقصان غریب عوا م کو ہوا، باقاعدہ پلاننگ سے آٹے اور چینی کی قیمتیں آسمانوں پر لے گئے ، جب ہم چھوڑ کر گئے تھے تو چینی پچاس روپے کلو تھی ، آج کہتے ہیں کہ سو روپے تک جا پہنچی ہے ، آٹے کی قیمتیں بھی دیکھ لیں ، دوائیوں کی قیمتیں آسمان تک پہنچ گئی ہیں ، عوام کے کھربوں روپے لوٹ لیے گئے ۔

علیمہ خان کوئی جدی پشتی رئیس نہیں بس خیراتی اداروں کی فنڈ ریزنگ کرتی ہیں ان کے بیرون ملک اثاثوں کی نیب کبھی کوئی چھان بین نہیں کرے گا ، بنی گالہ کی غیر قانونی تعمیر کی فائل یوں ہی بند رہے گی ،فارن فنڈنگ کیس ،جس میں بے شمار کرپشن ہے ، جن کی گواہی خود پی ٹی آئی کے رہنما دے رہے ہیں ، اتنے سال گزر جانے کے باوجود الیکشن کمیشن ان پر کوئی فیصلہ نہیں کرے گی ۔یہ بڑے ایسے جاندار سوالات ہیں جن کا آج تک کوئی جواب سامنے نہیں آیا ہے ، ہم کب تک انتظار کریں گے ، کیا ان تمام لوگوں پر کوئی فوجداری مقدمہ قائم نہیں ہو گا ، کیا بنی گالہ کی زمین کی خریداری پر کوئی جے آئی ٹی نہیں بنے گی ۔

کل ٹیکس گوشواروں کی تفصیل سامنے آئی، عمرا ن خان نے اربوں کی جائیداد رکھتے ہوئے دو لاکھ 83 ہزار ٹیکس دیا ہے ، جب آمدنی اتنی کم ہے تو آپ کے لاہوور زمان پارک والے گھر پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپے کہاں سے آئے ، کیا نیب آمدن سے زائد اثاثوں پر کوئی ایکشن نہیں لے گا ، احتساب کے اداروں کے اپوزیشن علاوہ کسی کے اثاثے نظر نہیں آتے ۔قوم کب تک دیکھنے اور جاننے کے باوجود خاموشی سے یہ سب سہتی رہے گی ،کیا ہم ایسا پاکستان آنے والی نسلوں کیلئے چھوڑنا چاہتے ہیں ، فیصلہ کرنا ہے آج ، میں تو کہوں گا نہیں ہرگز نہیں ، کبھی بھی نہیں ۔

شعر۔

میں تو ان خیالات اور نظریے کا حامی ہوں ، میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتاہے ، افسوس کہ دیگر حقوق کی طرح عوام سے یہ حق بھی چھین لیا گیا ،

صحافیوں کو سرکاری ایجنسی کا اٹھا کر لے جانا اور تشدد کا نشانہ بنانا بزدلانہ اور قابل مذمت ہے ، سینئر صحافیوں کو چینلز کی ملازت سے بر خاست کر دینا اور قید میں ڈال دینا کیا ایک جمہوری ریاست کا طریقہ ہے ، میں کانفرنس کے شرکاءسے درخواست کروں گا کہ ہم میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی حفاظت کریں گے اور اس کی آزادی پر کوئی قد غن قبول نہیں کریں گے ۔محتر چیئرمین بلاول بھٹو صاحب جمہوریت کو کمزور کرنے اور مخصوص ایجنڈا نافذ کرنے کیلئے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی عام ہو چکی ہے ، کچھ عرصہ تک سیاستدانوں تک محدود تھی ، یہ طریقہ سیاسی جماعتیں توڑنے یا پھر فارورڈ بلا ک بنانے کیلئے استعمال ہوتا رہا ، محکمہ زراعت کو تو آپ سمجھتے ہی ہیں ، ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا ہم ایک ہیں ، قومی مفاد کی خاطر تقسیم ہونے سے انکار کرتے ہیں ، اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر کانفرنس کامیاب ہے ، یہ کانفرنس تاریخ کا سنگ میل بن سکتی ہے ، اب ڈیوائڈ اینڈ رول کا یہ ہتھیار ، دانشوروں ، وکلاء، اور میڈیا کیلئے استعمال ہو رہاہے ، بلکہ اب اس کا ہدف عدلیہ بھی ہے ، جو جج انصاف کی راہ پر چلتاہے اور دباﺅ میں آنے سے انکار کر تاہے اسے عہدے سے ہٹانے کی سازشیں شروع ہو جاتی ہے ، جیسے شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس فائز عیسی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔یہ دونوں جج صاحبان دیانتداری اور سچائی کی شہرت کے حامل ہیں ،

با ضمیر ججوں کے ساتھ یہاں ایسا ہی سلوک کیا جاتاہے ، یہاں انصا ف پسند اور امانتدار نہیں بلکہ ایسے منصف تلاش کیے جاتے ہیں جو ان کے ہر جائز اور ناجائز مطالبات تسلیم کریں ، ان کی بلیک میلنگ کے آگے سر تسلیم خم کریں ، نظریہ ضرورت بنائیں اور پروان چڑھائیں ۔آئین کو سبوتاژ کرنے والے ڈکٹیٹر وں کو قانون کا جامہ عطا کریں ، ان کو ویلکم کریں ، آپ نے تو بہت اچھا کام کیاہے ، آپ کی تو ضرورت تھی آج ، یہ تو کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا ، آپ نے مارشل لاءلیٹ لگایاہے ، سب سے پہلے پھول لے کر پیش کیے جاتے رہے ہیں ،یہ سب تماشا آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ،یعنی یہ سب کچھ ہو رہاہے اور وزیراعظم کو پھانسی دیں ، جلا وطن کریں اور ان کے خاندان کو ذلیل و رسوا کریں۔

متوازی حکومت کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے ٹھوس حکمت عملی بنائی جائے ، عوام کی رائے پر اپنی رائے مسلط کرنے کا نتیجہ سقوط ڈھاکہ کی شکل میں سامنے آیا تھا ، یہ کانفرنس حمود الرحمان کمیشن کی سفارشات کو عوام کے سامنے لائے ، بہت دفعہ ذکر ہو چکاہے لیکن آج انہیں عملی جامہ پہنانے کا عہد کرنا چاہیے اور اسے اپنے ایجنڈے کا حصہ بنانا چاہیے ، اس طرح کے ٹھوس اقدامات سے ملک کو اس دلدل سے نکالا جاسکتاہے ، اولین ترجیح سلیکٹڈ حکومت اور ا س سے کئی زیادہ اہم اس نظام سے نجات حاصل کرناہے جس کا میں نے ذکر کیاہے ، عمران خان ہمارا ہدف نہیں ہے ، ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں ہے ، الیکشن سے پہلے بھی کہا اور آج بھی کہہ رہاہوں ، ہماری جدو جہد عمران خان کو لانے والوں کے خلاف ہے ، اور ان کے خلاف ہے جنہوں نے ملک کو برباد کر دیا ، یہ ملک ہمیں تمام چیزوں سے زیادہ عزیز ہے ، جس میں اچھی شہرت کے حامل جج صاحبان کو بھی نشانہ بنالیا گیاہے ، یہ نااہل اور ظالمانہ نظام ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دے گا ، ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے دشمنوں کے عزائم کیا ہیں انہیں ناکام بنانے کیلئے معیشت کے ساتھ مضبوط دفاعی نظام کی بھی ضررورت ہے ، ہم نے پہلے بھی اس ملک کو ایٹمی قوت بنایا ہے ، ہماری قومی سلامتی کیلئے ضروری ہے کہ معیشت کے ساتھ مسلح افواج کو بھی مضبوط سے مضبوط بنائیں ، اس کام میں ماضی میں کوئی کثر نہیں چھوڑی اور آئندہ بھی ہماری یہ ترجیح رہی گی۔

قومی سلامتی کیلیے سب سے اہم یہ ہے کہ ہماری مسلح افوا ج آئین پاکستان اور دستوری حلف اور قائد اعظم کی تلقین کے مطابق خود کو سیاست سے دور رکھیں اور عوام کے حق حکمرانی میں مداخلت نہ کریں ، کسی کے کہنے پر پرائم منسٹر ہاﺅس کے گیٹ پھلانگ کر وزیراعظم کو گرفتار نہ کریں ، ایسا ان آنکھوں نے دیکھا ہے ، اس کا مشاہدہ کیاہے ، و ہ منظر میری آنکھوں کے سامنے رہتے ہیں اور بڑا دکھ ہوتاہے کہ ہم نے اپنے ملک کو کیا بنا دیاہے ایک تماشا بنا دیاہے ، اپنی اور دنیا کی نظروں میں ، آخر میں یہ یقین دلاتاہوں اے پی سی جو بھی حکمت عملی بنائے گی ، ن لیگ اس کا بھر پورساتھ دے گی۔

شہبازشریف بیٹھے ہیں ، ہم بھر پور ساتھ دیں گے ، ایک سیکنڈ کیلیے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ، اے پی سی روایت سے ہٹ کر حقیقی تبدیلی کیلئے ٹھوس اقدامات تجویز کرے ، ہمارے کئی دوست قید و بند کی مصیبتیں کاٹ رہے ہیں ، خور شید شاہ ، حمزہ شہباز ،میر شکیل الرحمان ناکردہ گناہوں کی سزا میں جیل کاٹ رہے ہیں ، کل یہی قربانیاں منزل کے حصوصل کا باعث بنیں گےی ، میں آپ سب کا شکر گزار ہوں ، بلاول بھٹو کا بھی دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتاں ہوں کہ مجھے اپنی گذارشات پیش کرنے کا موقع دیا ،میری اور پوری قوم کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں ۔