اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ جج قانون سے بالاتر نہیں ان کا بھی احتساب ضروری ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے “سوشل میڈیا کے دور میں عدالتوں کی آزادی” کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس میں ویڈیو لنک کے ذریعے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایک جج کو سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے مواد سے متاثر ہونے یا ڈرنے کی ضرورت نہیں، ایک جج کو کسی کے اثر، دباؤ، دھمکی یا مداخلت کے بغیر قانون کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے، موثر انصاف کی فراہمی آزاد عدلیہ اور آزاد ججز کے بغیر تصور نہیں کی جا سکتی۔ جج قانون سے بالاتر نہیں ان کا بھی احتساب ضروری ہے،احتساب آزاد عدلیہ کے لئے اہم ستون ہے ،احتساب تب ہی موثر ہوگا جب وہ مخصوص اور ٹارگٹڈ نہ ہو بلکہ بلا امتیاز ہو ، بطور جج ہائیکورٹ آج تک کوئی مجھے تک رسائی حاصل نہیں کر سکا نہ کوئی مجھے دباؤ میں نہیں لا سکا ، میرا حلف مجھے اجازت نہیں دیتا کہ کسی کی مجھ تک رسائی ہو ،میرے بہت سے فیصلے ریاستی ستون انتظامیہ کے پسند کےنہیں تھے،پھر بھی کسی کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے میں کسی بھی دباؤ میں آنے سے محفوظ رہا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ سوشل میڈیا نے دنیا بھر میں انسانی زندگیوں کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے، انصاف کا عمل اور ججز اس وقت منظم مہم کا نشانہ بنتے ہیں، جب سیاسی نوعیت کے مقدمات زیر سماعت ہوں، اس وقت معاملہ مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے ، جب فریقین میں کوئی سائل، ملزم یا متاثرہ فرد سیاسی حیثیت رکھتا ہو، جب سیاسی نوعیت کی کیسز زیر التوا ہوں تو سیاسی مخالفین سوشل میڈیا پر منظم انداز میں متحرک ہوتے ہیں، سیاسی مخالفین کا زیر سماعت مقدمات توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں، سیاسی مقدمات میں جوڈیشل افسران اور عدالتی کارروائی پر سوشل میڈیا کے ذریعے اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے، عدالتی کارروائی کو جان بوجھ کر چلائی گئی مہم کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن سوشل میڈیا مہم کا عدالتی فیصلوں پر اثر نہیں پڑتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ فیصلے میں متاثرہ فریق جج اور عدلیہ کو منظم انداز میں متنازع بنانے کی کوشش کرتا ہے، سیاست زدہ ماحول میں عدالتوں کے سامنے چیلنجز مزید سخت ہوجاتے ہیں، سوشل میڈیا کا غلط استعمال اصل سائلین کے انصاف کے حق کو متاثر کرتا ہے، میں اسمارٹ فون استعمال نہ کرنے کی وجہ سے سوشل میڈیا کے اثرات سے محفوظ رہا، سوشل میڈیا پر مجھ پر جھوٹے الزامات لگائے گئے، میں نے یہ سمجھا ہے کہ یہ میرے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا اور مہمات ہیں، سوشل میڈیا کی جھوٹی مہمات عدالت کو دباؤ میں لانے میں ناکام رہیں، ایک سیاسی شخصیت کے حوالے سے فیصلہ دینے پر میرے خلاف جھوٹی مہم چلائی گئی، سوشل میڈیا جھوٹی مہم میں الزام لگایا گیا کہ مجھے سیاسی شخص نے پراپرٹی تحفے میں دی، اتنے اعتماد کے ساتھ الزام لگایا گیا کہ جو لوگ مجھے نہیں جانتے انہوں نے یقین کرلیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ گزشتہ سال کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقا میں کانفرنس میں شرکت کے لئے گیا، ایک اسپورٹس کار کے ساتھ تصویر بنوائی، وہ تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، سوشل میڈیا پر بتایا گیا کہ میں ایک سیاسی جماعت کے رکن کے ساتھ لندن میں موجود ہوں، کچھ ہی گھنٹوں بعد اہلیہ نے فون پر شک کا اظہار کیا کہ میں واقعی کیپ ٹاؤن میں موجود ہوں؟ سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف ٹویٹ کرنے پر توہین عدالت کارروائی شروع کرنے کی درخواست میں نے خارج کردی، سوشل میڈیا یا آزادی اظہار رائے پر قدغن کا بالکل حامی نہیں،عوام کی جانب سے نیک نیتی کی بنا پر کی گئی تنقید میں کوئی حرج نہیں۔