بارایسوسی ایشنز اور بار کونسلز نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کامعاملہ ایف بی آر میں بھیجنے کے خلاف نظر ثانی درخواستیں دائرکررکھی ہیں
بارایسوسی ایشنز اور بار کونسلز نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کامعاملہ ایف بی آر میں بھیجنے کے خلاف نظر ثانی درخواستیں دائرکررکھی ہیں

سرینا عیسیٰ معاملے پر نظر ثانی درخواستیں،وکلا تنظیموں کابینچ پر اعتراض

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا معاملہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو بھیجنے کے معاملے پر ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسلز نے نظر ثانی درخواستیں7 رکنی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کرنے پر اعتراض اٹھادیا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی لارجربینچ نے28 اکتوبر کو نظر ثانی درخواستوں پرسماعت کرنی ہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دیا تھا۔
لارجز بینچ کے7 ججز جسٹس عمر عطابندیال، جسٹس منظور احمد ملک،جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی امین نے قرار دیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور ان کے بچوں کے بیرون ملک جائیدادوں کے حوالے سے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے تحت اسلام آباد میں 60 دن میں کارروائی مکمل کی جائے۔
بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسلز نے معاملہ ایف بی آر میں بھیجنے کے خلاف نظر ثانی درخواستیں دائرکررکھی ہیں، ان درخواستوں کی سماعت 7 رکنی بینچ نےکرنی ہے۔
7رکنی بینچ میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل نہیں ہیں۔
بار ایسوسی ایشنز و بارکونسلز کا 7 رکنی بینچ پر اعتراض کرتے ہوئے کہنا ہےکہ عام طور پر نظرثانی درخواستیں وہی بینچ سنتا ہے جس بینچ نے مرکزی مقدمہ سنا ہو اس لیے نظرثانی درخواستیں 10 رکنی بینچ کے سامنے ہی سماعت کے لیے مقرر کی جائیں اور چیف جسٹس گلزار احمد نظرثانی درخواستوں پر سماعت کے لیے وہی 10 رکنی بینچ تشکیل دیں جس نے پہلے مقدمہ سنا۔
خیال رہےکہ سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستوں کا مختصر حکم نامہ 19 جون کو سنایا تھا جب کہ تفصیلی فیصلہ 22 اکتوبر کو جاری کیا گیا۔