نذر الاسلام چودھری
عالمی سائنس دانوں کی ٹیم نے ایک حیرت انگیز سیارہ دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق ’’کے ٹو۔141 بی‘‘ نامی سیارے پر چھوٹے بڑے نوکیلے پتھروں کی برسات ہوتی ہے۔ جبکہ اس سیارے پر کھولتے لاوے کے 62 میل یا ایک سو کلومیٹر تک گہرے سمندر بھی موجود ہیں۔ یہاں آواز کی رفتار سے چار گنا تیز ہوائیں چلنا معمول ہے۔ اس سیارے کا ایک حصہ انتہائی بلند درجہ حرارت یعنی 3 ہزار ڈگری سینٹی گریڈ کا حامل ہے، تو دوسرا حصہ انتہائی سرد ہے جو منفی دو سو ڈگری سینٹی گریڈ تک ہے۔ عالمی ماہر فلکیات ٹیو جیان نیوجن نے بتایا کہ ان کے دریافت شدہ سیارے پر انتہائی شدید موسم پایا جاتے ہیں۔ یہاں جب ہوائیں چلتی ہیں تو ان کے ساتھ چٹانی پتھروں کی بارش ہوتی ہے۔ جب اس سیارے پر برف پڑتی ہے تو یہ بہت بڑے تودوں کی شکل میں ہوتی ہے۔ یہاں کا اس وقت کا ٹمپریچر منفی دو سو سینٹی گریڈ ہوجاتا ہے جس میں انسانی زندگی پنپ ہی نہیں سکتی۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہاں پر آواز سے چا رگنا تیز رفتار یعنی سپر سونک اسپیڈ سے یخ بستہ یا گرم ہوائیں بھی چلتی ہیں۔ ٹیو جیان نیوجن کا کہنا ہے کہ ’’کے ٹو۔141 بی‘‘ سیارہ انسانی رہائش کیلئے ہرگز قابل نہیں ہے۔ کینیڈین اور بھارتی ماہرین کی ٹیم نے بتایا ہے کہ یہ ایک پتھریلا سیارہ ہے جو ہماری زمین جیسی ساخت رکھتا ہے۔ سائنسی محقق پروفیسر نکولاس کووین کا کہنا ہے کہ اس آتش فشانی سیارے میں چٹانوں کی بارش ہوتی ہے اور یہ سیارہ اپنے میزبان ستارے کے بہت زیادہ قریب واقع ہے۔ اس کا دو تہائی حصہ آگ برساتی روشنی کی زد میں، جبکہ اس کا تاریک حصہ سرد رہتا ہے۔ یعنی اس کا نصف حصہ ناقابل برداشت سردی میں ہے اور بقایا نصف حصے میں انتہائی سخت قسم کی گرمی کا موسم ہے۔ نو دریافت شدہ سیارہ ہماری زمین سے 202 نوری سال کے فاصلہ پر ہے اور یہ ’’اکیوریئس‘‘ نامی کانسٹی لیشن میں موجود ہے۔ یارک یونیورسٹی کے محققین نے ایک کمپیوٹر سیمولیشن کے ذریعے اس منفرد سیارے کے موسم اور ماحول کی پیش گوئیاں کی ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج جریدے ’’منتھلی نوٹسز آف دی رائل آسٹرونومیکل سوسائٹی‘‘ نامی جریدے میں شائع ہوئے ہیں۔ اس سیارے پر لاوے کا ایک سمندر بھی ہے جس کی گہرائی 62 میل یا 100 کلومیٹر تک ہوسکتی ہے۔ جبکہ اس کی سطح پر کم و بیش پانچ ہزارکلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے تیز ترین ہوائیں چلتی ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ تمام چٹانی سیارے بشمول زمین شروعات میں پگھلی ہوئی دنیائیں تھیں، جو بہت تیزی سے ٹھنڈی ہوکر ٹھوس شکل اختیار کرگئیں۔ آتش فشانی سیارے ہمیں اس ارتقائی عمل کی نایاب جھلکیاں فراہم کرتے ہیں اور توقع کی جاتی ہے کہ اگلی نسل کی دوربینوں سے اس سیارے کا انتہائی قریب سے مشاہدہ ممکن ہوگا۔ تحقیق کے مطابق یہ سیارہ اس قدر تیزی سے اپنے اسٹار یعنی سورج کے گرد گھومتا ہے کہ اس کا ایک سال صرف سات گھنٹوں میں مکمل ہو جاتا ہے۔ یہ سیارہ ایک ’’اورنج ڈوارف‘‘ ہے یعنی سورج کے مقابلے میں اس کا درجہ حرارت کافی کم ہے۔ یہ اس قدر مدہم ہے کہ اسے زمین سے کھلی آنکھ یا دور بین کی مدد سے بھی دیکھا نہیں جا سکتا۔ کول کتہ میں قائم انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، کینیڈا میں یارک یونیورسٹی اور میک گل یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک آتش فشانی سیارہ ہے۔ یہ سیارہ ایک ’’سپر ارتھ‘‘ بھی ہے۔ اگرچہ اس کا حجم ہماری زمین سے زیادہ بڑا نہیں ہے، تاہم اس کا قطر ہماری زمین سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ اسی لئے اس سیارے کی کشش ثقل زمین سے پانچ گنا زیادہ پائی گئی ہے۔ ’’نیچر‘‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ اس سیارے کوماہرین نے 2018ء میں ہی دریافت کرلیا تھا۔ لیکن مطالعاتی جائزوں اور رپورٹس کی تصدیق کے بعد اب جا کر اس کی خصوصیات کے بارے میں پتا چل سکا ہے۔ اس لاوا سیارے کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہاں ہر چیز پتھر کی بنی ہوئی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ سیارے کی گرم اور ٹھنڈی اطراف کی وجہ سے اس سیارے پر آواز کی رفتار سے چار گنا تیز ہوائیں بھی چلتی ہیں اور کبھی کبھی وہ 5000 میل فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچ جاتی ہیں۔ پروفیسر کوون کا کہنا ہے کہ یہ ہوائیں تیزی سے پتھر کے بخارات کو ٹھنڈی طرف لے جاتی ہیں اور پتھر کے قطرات بننے لگتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں پتھروں کی بارش شروع ہوجاتی ہے اور نیچے لاوے کا سمندر ہوتا ہے۔ پروفیسر نیوجن کا کہنا ہے کہ لاوا سیارے پر تحقیق سے ہمیں اپنی زمین کی ابتدا کے بارے میں یقینی معلومات مل سکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لاوا سیارہ، ہمیں سیاروں کے ارتقا اور ان کے مدارج کے بارے میں معلومات دے سکتا ہے۔ شاید زمین سمیت تمام پتھریلے سیارے پگھلنے والی دنیا کے طور پر شروع ہوئے تھے۔ دنیا اب تک متعدد قدرتی آفات کا سامنا کرچکی ہے، جس کی نشانیاں آج تک دیکھی جاسکتی ہیں۔