افغانستان کا دروازہ بند ہونے سے پہلے خود کو قوم پرستی کے باتھ روم سے نکال لیں۔فائل فوٹو
افغانستان کا دروازہ بند ہونے سے پہلے خود کو قوم پرستی کے باتھ روم سے نکال لیں۔فائل فوٹو

قوم پرستی کے گندے نالے سے نکلنا پشتون موومنٹ کے حق میں بہتر

اسلام آباد۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ پشتون موومنٹ کا سیلابی ریلا خاکی ڈیم کی گہری جھیل میں سما چکا ہے۔ قوم پرستی کے نوخیز دیوتائوں نے لکڑی کی جو تلواریں اٹھارکھی تھیں۔ وہ بکتر بند آقائوں کے جوتوں کی نذر کردی ہیں۔ اور نئے حلف وفاداری نے ان کے ہاتھ میں لکڑی کے چرخے تھمادیے ہیں۔

عدم تشدد کی علامت والے گاندھی چرخے۔ جن پر وعدوں۔ نعروں۔ اور خوابوں کے تار کاتے جاتے ہیں۔ اور رسی بناکر مطالبات کے پیروں میں باندھے جاتے ہیں۔ قوم پرستی کے طوفانی جھکڑنے کئی ماہ قبل راولپنڈی کی وادیوں میں ٹڈی دل کی طرح پڑائو ڈال دیا تھا۔ طاقت پروازاور آتش گفتار بھی ختم ہوچکی تھی۔ لیکن ٹرک کی بتی کے پیچھے پشتون نوجوانوں کوچلانے کی تاکید ہر تقریر میں اب بھی نمایاں ہے۔

یہ تقریریں جذبات کی چربی میں فرائی ہوتی ہیں اور سادہ پشتونوں کو آسرے کے چپلی کباب میں کھلائی جاتی ہیں۔ ایک لحاظ سے اچھی بات ہے کہ پشتون موومنٹ دشمنوں کا آلہ کار بننے کے بجائے اپنوں کی گود میں آگری ہے لیکن بری بات یہ ہے کہ اس کی بنیاد میں جو خرابی مضمر ہے۔ وہ قائم ہے شاید یہ خرابی رکھنا آقائوں کی بھی ضرورت ہے اورغلاموں کی بھی۔ یہ خرابی قوم پرستی ہے۔ وہ قوم پرستی جس نے اس ملک کے سب سے مہذب۔ تعلیم یافتہ۔ شستہ ۔ شائستہ اور امن پسند افراد کو جہالت ۔ تنگ نظری ۔ حماقت اور دہشت گردی کے غار میں دھکیل دیا۔

الطاف حسین کی قیادت میں بننے والی جماعت نے دوکروڑ اردو اسپیکنگ انسانوں کو زمانہ جاہلیت میں پہنچادیا۔ اور اب بھی باہر آنے سے روک رہی ہے۔ وہ قوم پرستی جس نے بلوچ سرداروں اور سرمچاروں کے ہاتھوں دلیر۔ بہادر۔ فراخ دل۔ مہمان نواز اور جیالے بلوچوں کو دہشت گردی اور تخریب کاری کے کنویں میں بند کردیا۔ اور پھر انہیں بھوک ۔ پیاس ۔ ننگ اور بے بسی کے گدلے پانی میں ڈبو دیا۔

وہ قوم پرستی جس نے عوامی نیشنل پارٹی جیسی مضبوط اور ملک گیر جماعت کو ولی خان کے لوٹے میں بند کرکے اسفندیار ولی کے باتھ روم میں رکھ دیا۔ جس نے پاکستان کے اولین تخلیق کاروں یعنی سندھیوں کو مفاد پرستوں کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی بنادیا۔ قوم پرستی کے معمر ۔فرسودہ ۔ زنگ آلود اور سوراخوں سے بھرے جہاز کو اب ماچا کونی کرکے پشتون موومنٹ کے حوالے کیا گیا ہے تاکہ پاکستانی قوم اکٹھی نہ ہوسکے اور مل جل کر حقوق نہ طلب کرسکے۔ یہ ماچا کونی کیا ہے ۔؟ یونانی زبان کا لفظ ۔ جہاز رانی کی دنیا کا جانا مانا محاورہ ۔ اس کا مطلب ہے پرانے جہاز کو رنگ کرنے سے قبل اس کے پرانے آہنی حصوں سے زنگ آلود پپڑیاں اکھاڑ کر دوبارہ تیار کرنا تاکہ جہاز پر نیا رنگ روغن کیا جاسکے۔

ایسے تھکے ہوئے جہازوں کا میک اپ اور رنگ روغن تب کیا جاتا ہے۔ جب مالک اسے دیکھنے آرہا ہو۔ یا بیچنا ہو۔ یا عالمی میری ٹائم ایجنسی کے چھاپہ دار اہلکار جہاز کا معیار چیک کرنے آرہے ہوں۔ جس پر جہاز اور کمپنی کے لائسنس کا دارومدار ہوتا ہے۔ (بہ شکریہ انور عادل) قوم پرستی کے اس زنگ آلود کھنگھاڑ پر پشتون موومنٹ کو بٹھانے کے بعد اسے ڈبونے کی تیاری ہوتی ہے۔

سب جانتے ہیں کہ افغانستان پر افغان طالبان کا غلبہ بڑھتا جارہا ہے۔ وہ اقتدار میں آئے تو سب سے پہلے قوم پرستی اور سامراجی ایجنٹوں کی جڑیں اکھاڑیں گے۔ قوم پرستی ملک کی جڑوں میں تیزاب ڈالتی ہے۔ اس لئے طالبان اسے برداشت نہیں کرسکتے۔ یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں پشتون قوم پرستی کی اصل سرپرستی افغانستان سے ہوتی رہی ہے۔ وہ ظاہر شاہ ہو۔ ترہ کئی ہو۔ امین یا نجیب ہو یا کرزئی اور غنی ۔

پشتون قوم پرستی کا منجن وہی حکمراں دیتے تھے۔ لیکن کابل پر اسلام کا پرچم لہرایا تو قوم پرستی کو قوم لوط کے کنویں میں گاڑ دیا جائے گا۔ ایسے میں پشتون موومنٹ کی پشت غیر محفوظ ہوجائے گی۔ اور نوجوانوں پراس کی گرفت ٹوٹنے لگے گی۔ پھراس توڑ پھوڑ پر قابو پانا اس کے بڑوں کے لیے بھی ممکن نہ ہوگا۔ اس لیے انہیں ابھی سے تیاری کرنی چاہیے۔ نمک کے بنے دیوتا کا بارش میں گھلنے کا منظر دیکھنے کے بجائے خود ہی اسے لات مارکر توڑ دینا چاہیے  اور قوم پرستی کے گندے نالے سے نکل کر ملت کے شفاف دریا میں شامل ہونا چاہیے۔

اے این  پی کا انجام ان کے لیے نمایاں سبق ہے خود کو اس کی راہ پر نہ ڈالیں۔ نظریہ جتنا چھوٹا ہوگا۔ قابو میں اتنی جلدی آئے گا۔ قوم پرستی چھوٹا۔ محدود۔ اور تنگ نظریہ ہے۔ اس کی مدد سے وہ دریا بن سکتے ہیں نہ سمندر۔ ہاں خود کو دریا بنالیں تو سمندر سے دوستی ہوسکتی ہے۔ افغانستان کا دروازہ بند ہونے سے پہلے خود کو قوم پرستی کے باتھ روم سے نکال لیں۔ ورنہ فسادی داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

قوم پرستی نے پشتونوں کو کبھی فائدہ نہیں پہنچایا۔ ہاں غفار خان۔ ولی خان اور اچکزئی نے افغانستان میں جائیدادیں ضرور بنالیں۔ پشتونوں کا خون بیچنے والے پہلے ہی بہت ہیں۔ پشتون موومنٹ کی قیادت اس کاروبار سے دور رہے تو اچھا ہے۔ اس میں اس کی بھلائی ہے اور پشتون قوم کی بھی۔