سردی بڑھتے ہی مہمان پرندوں کا بے دریغ شکار شروع ہوگیا ہے۔ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کی کارروائیوں کے باوجود شکاری باز نہیں آرہے۔ جبکہ غیر ملکی مہمانوں کی بھی جلد آمد متوقع ہے۔ کراچی سمیت سندھ کے کئی شہروں میں مہمان پرندے فروخت کئے جا رہے ہیں۔ جبکہ ان کا گوشت ہوٹلوں اور شادی کی تقریبات کیلئے بھی بیچا جا رہا ہے۔
سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹیوں اور آبی گزرگاہوں پر سائبیرین پرندوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہونے کے ساتھ ان کا غیر قانونی شکار بھی بڑھ گیا ہے۔ ہر سال تقریباً لاکھوں کی تعداد میں یہ مہمان پرندے مختلف ملکوں سے پرواز کرتے ہوئے زیریں سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی کی مختلف جھیلوں نریڑی جھیل، کیریو بھنڈاری اور زیرو پوائنٹ سمیت دیگر آبی گزرگاہوں اور ساحلی علاقوں کا رخ کر رہے ہیں۔ جبکہ ان نایاب پرندوں کی آمد کے ساتھ ہی ملک بھر سے غیر قانونی شکار کرنے والے افراد سندھ اور بلوچستان پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔ جہاں ان پرندوں کا بڑے پیمانے پر شکار کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق شکاری اور ان کے ایجنٹ روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں پرندے کراچی اور حیدرآباد کی بڑی مارکیٹوں میں فروخت کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ان کا گوشت یا پورے پرندے بڑے ہوٹلوں اور شادی کی تقریبات میں بھی بیچے جا رہے ہیں۔ ذرائع کے بقول مہمان آبی پرندوں کا شکار کرکے بڑے پیمانے پر رقم کمائی جا رہی ہے۔ متحدہ عرب امارات سمیت دیگر عرب ممالک اور غیر ملکی با اثر مہمانوں نے بھی ان نایاب آبی اور صحرائی پرندوں اور دیگر جانوروں کے شکار کے لئے پاکستان آنے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ چند روز میں ان مہمانوں کی آمد بھی متوقع ہے۔ دوسری طرف شکاریوں نے گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال آبی پرندوں کی قیمتوں میں چالیس فیصد اضافہ کردیا ہے۔ شکاریوں کی جانب سے سندھ بھر کے مختلف شہروں میں تاجروں کو کمیشن کے عوض بک کیا گیا ہے اور ایڈوانس رقم بھی وصول کرلی گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق جس بے دردی سے ہجرت کرنے والے پرندوں کا شکار جاری ہے۔ وہ دن دور نہیں جب پاکستانی علاقوں سے کونج، بٹیر اور شاہین جیسے پرندے بھی نظر آنا بند ہو جائیں گے۔ ان ماہرین نے بتایا کہ بلوچستان میں طویل خشک سالی کے بعد رواں سال چونکہ بارشیں زیادہ ہوئی ہیں۔ اس وجہ سے مہمان پرندوں کی بڑی تعداد میں آمد کا امکان ہے۔ ستمبر میں نقل مکانی کرنے والے پرندے سائبیریا سے براستہ ژوب بلوچستان میں داخل ہوتے ہیں اور پھر صوبے کے گرم علاقوں اور سندھ کی جھیلوں اور آبی گزرگاہوں میں پھیل جاتے ہیں۔ سائبیریا سے نقل مکانی کرنے والے ان پرندوں کے روٹ کو ’انڈس فلائی وے گرین روٹ‘ کہا جاتا ہے۔ محمد سلیم پرندوں کے بے دریغ شکار کو اچھا نہیں سمجھتے۔ لیکن وہ بھی پرندوں کی آمد کے سیزن میں بلوچستان کے ضلع کچھی کے میدانی علاقوں میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کیمپ لگا کر شکار کرتے ہیں۔ سلیم نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ زیادہ تر شکاری پرندوں کا شکار بندوقوں سے کرتے ہیں اور بعض جالوں کے ذریعے بھی پکڑتے ہیں۔ تاہم سلیم بے دریغ شکار کے خلاف ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ’’شکاریوں کو اس بات کی آگاہی نہیں کہ ان کے بے دریغ شکار سے پرندوں کی نسل ختم ہو رہی ہے۔ بعض شکار ی رات کو پرندوں کے گزرنے کے راستے پر جال لگاتے ہیں اور اسپیکر پر پرندوں کی آواز لگا کر باقیوں کو قابو کرتے ہیں۔ اس طریقے سے کسی بھی پرندے کا بچنا مشکل ہوتا ہے‘‘۔ ایک اور سوال پر محمد سلیم نے کہا کہ انہیں آج تک کسی حکومتی ادارے یا تنظیم نے نہیں بتایا کہ کس پرندے کا شکار کتنی تعداد میں اور کس وقت کرنا چاہیے۔ تاہم وہ خود پرندوں کے انڈے دینے اور بچے دینے کے وقت کا خیال کرتے ہیں۔ سلیم کے مطابق اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود انہیں اس بات کا علم نہیں کہ بلوچستان میں نقل مکانی کرکے آنے والے پرندوں میں کن کو معدومی کا خطرہ ہے۔ ماہر مائیگریٹری برڈز پروفیسر گل خان نے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں خدشہ ظاہر کیا کہ جس بے دردی سے پرندوں کا شکار جاری ہے۔ وہ دن دور نہیں جب ہمارے علاقے سے کونج، بٹیر، شاہین بھی نظر آنا بند ہو جائیں گے۔ ژوب میں شکاری پارٹیاں سرعام پرندوں کا شکار کر رہی ہیں۔ جن میں غیر مقامیوں کے ساتھ مقامی بھی شامل ہیں۔ جو شہر سے باہر کیمپ لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان شکاریوں میں خیبرپختون کے علاقے لکی مروت اور بنوں وغیرہ کے لوگ بھی شامل ہیں۔ گل خان نے بتایا کہ اکتوبر کے مہینے سے فالکن شاہین (جسے چرخ بھی کہا جاتا ہے) کی آمد شروع ہوجاتی ہے جو بہت قیمتی پرندہ ہے۔ مقامی افراد کے ساتھ غیر مقامی بھی اس کا شکار کرنے کے بعد عرب باشندوں کو مہنگے داموں فروخت کر دیتے ہیں۔ ژوب کے علاوہ لورالائی، موسیٰ خیل، میختر اور بارکھان میں بھی پرندوں کا بے دریغ شکار کیا جارہا ہے۔ جو انتہائی تشویش ناک ہے۔ وہ پندرہ بیس سال سے پرندوں کا بے دریغ شکار دیکھ رہے ہیں۔ حکومت پابندی لگا کر چند ایک شکاری گرفتار کر لیتی ہے۔ لیکن عملاً کچھ نظر نہیں آتا۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے شکار صرف خزاں اور بہار کے موسم میں کیا جاتا تھا۔ لیکن اب سارا سال شکاری پرندوں کا پیچھا کرتے ہیں۔ دوسری جانب سندھ اور بلوچستان کے محکمہ جنگلات اور جنگلی حیات کے مطابق پرندوں کے غیر قانونی شکار کی اجازت نہیں۔ انہیں جہاں سے بھی غیر قانونی شکار کی شکایت ملتی ہے۔ وہ فوری کارروائی کرتے ہیں۔