امت رپورٹ
سلیم مانڈوی والا کے خلاف تحقیقات اب سینیٹ اور نیب کی جنگ بن گئی ہے۔ ڈپٹی چیئرمین کے خلاف نیب نے گزشتہ برس انکوائری کا آغاز کیا تھا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے جعلی اکائونٹس کے ذریعے وصول کی جانے والی رقم سے اپنے اثاثے بنائے۔ سلیم مانڈوی والا دو بار نیب کے سامنے پیش ہوچکے ہیں۔
گزشتہ برس اکتوبر میں جب سلیم مانڈوی والا نیب کی کمبائنڈ انوسٹی گیشن ٹیم کے سامنے پیش ہوئے تھے توانہیں ایک سوالنامہ دیا گیا تھا۔ جس کا جواب دس روز میں طلب کیا گیا تھا۔ سلیم مانڈوی والا نے جواب جمع کرا دیا تھا۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کی انوسٹی گیشن ٹیم ان جوابات سے مطمئن نہیں ہوئی تھی۔ جس پر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو رواں برس جولائی میں دوبارہ نیب کے سامنے پیش ہونا پڑا تھا۔ لیکن ان دونوں پیشیوں کے باوجود سلیم مانڈوی کے ماتھے پر بل نہیں پڑے تھے۔
اس معاملے سے آگاہ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی حالیہ برہمی کے پیچھے دو عوامل ہیں۔ ایک یہ کہ انہیں زبردستی پلی بارگین پر مجبور کیا جارہا ہے۔ جبکہ سلیم مانڈوی والا کا موقف ہے کہ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا تو پھر وہ پلی بارگین کیوں کریں۔ دوسرا یہ کہ سلیم مانڈوی والا کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ ذرائع کے بقول سلیم مانڈوی والا کے حد درجہ طیش میں آنے اور معاملہ سینیٹ میں لے جانے کا اعلان کرنے کے پیچھے نیب کا یہی اقدام کارفرما ہے۔
سلیم مانڈوی والا کو امید نہیں تھی کہ نیب ان کے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے اہم عہدے کو بھی خاطر میں نہیں لائے گا۔ اور اتنا آگے چلا جائے گا۔ نیب نے سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں سلیم مانڈوی والا کے نام پر رجسٹرڈ مختلف کمپنیوں کے اکتیس لاکھ شیئرز منجمد کر دیئے ہیں۔ جبکہ احتساب عدالت بھی نیب کے اس اقدام کی توثیق کر چکی ہے۔
اس حوالے سے احتساب عدالت میں جمع کرائی جانے والی ’’امت‘‘ کو دستیاب نیب رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر سلیم مانڈوی والا نے بے نامی شیئرز طارق محمود کے نام پر خریدے۔ جو جعلی اکائونٹس کیس میں ملزم ہے۔ اور یہ کہ اے ون انٹرنیشنل کے جعلی اکائونٹ سے ان حصص کی خریداری کے لئے سلیم مانڈوی والا کو تین کروڑ روپے اداکئے گئے تھے۔
اس بارے میں سلیم مانڈوی والا کا موقف حاصل کرنے کے لئے ’’امت‘‘ نے ان کے موبائل فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن رابطہ ممکن نہیں ہوسکا۔ تاہم اپنے دفاع سے متعلق ایک بیان میں سلیم مانڈوی والا کہہ چکے ہیں کہ ان پر عائد الزامات سو فیصد غلط ہیں۔ جبکہ میڈیا ان کی کردار کشی کے لئے نیب کا یکطرفہ موقف چلاتا رہا۔
واضح رہے کہ جعلی اکائونٹس کیس میں نیب نے پی آئی اے کے سابق ایم ڈی اعجاز ہارون کو بھی ملزم نامزد کیا تھا اور وہ اس کیس میں نیب کی حراست میں بھی رہے۔ آج کل ضمانت پر ہیں۔ سلیم مانڈوی والا اور اعجاز ہارون، قریبی اور دیرینہ دوست ہیں۔ ذرائع کے مطابق اعجاز ہارون نیب انکوائری کے اس حصے کو تو تسلیم کرتے ہیں کہ اومنی گروپ کے اکائونٹس سے ان کے اکائونٹس میں رقم ٹرانسفر ہوئی۔ لیکن ان کا موقف ہے کہ یہ رقم انہوں نے پلاٹوں کی فروخت کی مد میں لی تھی اور یہ کوئی جرم نہیں۔ جبکہ یہ بھی ان کے علم میں نہیں تھا کہ انہیں ٹرانسفر کی جانے والی رقم جعلی اکائونٹس سے کی گئی۔ اگر ایسا ہے تو یہ اومنی گروپ کا معاملہ ہے۔ کیونکہ ان کے جن اکائونٹس میں رقم آئی وہ جعلی نہیں تھے۔
سابق ایم ڈی پی آئی اے اعجاز ہارون پرالزام ہے کہ انہوں نے بارہ فرضی پلاٹوں کی فائلیں جعلی الاٹیز کو فروخت کی تھیں۔ اور یہ کہ بارہ فرضی پلاٹوں کی جعلی فائلیں بنانے کے لئے اعجاز ہارون نے اوورسیز کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی کے چیئرمین ہونے کی حیثیت کا غلط استعمال کیا۔
نیب کے مطابق بعد ازاں بارہ فرضی پلاٹوں کی یہ فائلیں اومنی گروپ کے لئے ایک سو چوالیس ملین روپے لانڈر کرنے کی خاطر استعمال ہوئیں۔ یہ لانڈرنگ لکی انٹرنیشنل اور اے ون انٹرنیشنل کے نام پر کھولے گئے دو جعلی اکائونٹس کے ذریعے کی گئی۔ اومنی گروپ کے ان جعلی اکائونٹس سے چودہ کروڑ روپے وصول کئے گئے۔ اس میں سے آٹھ کروڑ روپے اعجاز ہارون اور چھ کروڑ روپے سلیم مانڈوی والا کے بینک اکائونٹ میں گئے تھے۔
اس بارے میں ’’امت‘‘ کے اہم ذریعہ نے جب اعجاز ہارون سے رابطہ کیا تو انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ ان کے اور ان کی فیملی کے اکائونٹس میں چودہ کروڑ روپے آئے تھے۔ لیکن یہ رقم انہوں نے پلاٹوں کی فروخت سے حاصل کی تھی اور یہ کوئی جرم نہیں۔ سابق ایم ڈی پی آئی اے کا مزید کہنا تھا ’’میرے پاس بارہ پلاٹوں کی فائلیں تھیں۔ یہ فائلیں میں نے عبدالمجید غنی (جعلی اکائونٹس کیس کا مرکزی ملزم) کو فروخت کیں۔ جس کی ادائیگی کے لئے عبدالمجید غنی نے مجھے کراس چیک دیئے تھے۔ یہ کراس چیک میں نے اپنے اکائونٹس میں جمع کرادیئے۔ اگر کوئی دو نمبری کرنا ہوتی تو میں کیش رقم لیتا۔ بذریعہ چیک کیوں وصول کرتا۔ اگر رقم ٹرانسفر کرنے والے عبدالمجید غنی کے اکائونٹس جعلی یا بے نامی تھے تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔
کیا یہ کسی کے لئے ممکن ہے کہ وہ کسی سودے کے عوض ملنے والی رقم بذریعہ کراس چیک وصول کرنے سے پہلے یہ انکوائری کراتا پھرے کہ جن اکائونٹس سے اسے رقم ٹرانسفر کی جارہی ہے، وہ اصلی ہیں یا جعلی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ میرے اپنے اکائونٹس جن میں یہ رقم منتقل ہوئی، وہ اصلی ہیں۔ جہاں تک پلاٹوں کی فرضی فائلوں کا تعلق ہے تو وہ اصلی تھیں اور یہ کہ ان پلاٹوں کی الاٹمنٹس انیس سو تیراسی میں ہوئی تھی۔ اس وقت میں اوورسیز کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی کا ممبر تک نہیں تھا۔ یہ بات ریکارڈ میں موجود ہے۔ لہٰذا میں ان پلاٹوں کی غیر قانونی یا فرضی الاٹمنٹس کے لئے اپنے اختیارات کیسے استعمال کرسکتا تھا‘‘۔ ایک سوال پر اعجاز ہارون نے بتایا کہ سلیم مانڈوی والا ان کے چالیس برس پرانے دوست ہیں۔ انہیں پیسوں کی ضرورت پڑی تھی تو میں نے اس رقم میں سے انہیں ادھار دے دیا۔ یہ ادھار کی رقم سلیم مانڈوی والا مجھے واپس کرچکے ہیں۔
اس سارے معاملے کا سیاسی پہلو دیکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ اعجاز ہارون اور سلیم مانڈوی والا دونوں آصف زرداری کے بہت قریب ہیں۔ اس کا خمیازہ بھی انہیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ دو ہزار آٹھ میں پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی تو صدر آصف زرداری کے دست شفقت کی وجہ سے ہی اعجاز ہارون پی آئی اے کے ایم ڈی لگے تھے۔ اعجاز ہارون چالیس برس کمرشل پائلٹ رہے اور ان کے والد بڑے بزنس مین تھے۔ لہٰذا شروع سے انہوں نے لگژری لائف گزاری ہے۔ کراچی کے مہنگے علاقے میں والد کے زمانے کا ایک پانچ ہزار گز کا پلاٹ تھا۔ جس پر اب ایک سولہ منزلہ رہائشی بلڈنگ کھڑی ہے۔ جس کی چھت پر اعجاز ہارون نے اپنی رہائش کے لئے عالیشان پینٹ ہائوس بنا رکھا ہے۔ عمارت کے دیگر رہائشیوں کے لئے الگ راستہ ہے۔ جبکہ پانچ ہزار گز پر واقع اپنے پینٹ ہائوس کے لئے اعجاز ہارون نے الگ راستہ اور لفٹ رکھی ہوئی ہے۔ اگر کوئی ملاقاتی آتا ہے تو تب ہی یہ لفٹ نیچے آتی ہے۔
دوسری جانب ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کا تعلق سندھ کے کاروباری خاندان سے ہے۔ ان کا سیاسی سفر بارہ سال پر مشتمل ہے۔ سن دو ہزار آٹھ میں جب پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی اور آصف زرداری صدر بنے تو سلیم مانڈوی والا کی لاٹری کھل گئی۔ پہلے انہیں بورڈ آف انوسٹمنٹ کا چیئرمین بنایا گیا۔ بعد ازاں ڈاکٹرعاصم سینیٹ کی رکنیت سے فارغ ہوئے تو ان کی جگہ سلیم مانڈوی والا کو سندھ سے سینیٹر بنا دیا گیا۔ چند ماہ بعد سلیم مانڈوی والا وزیر مملکت برائے خزانہ تعینات ہوئے۔ اور جب وفاقی وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے استعفیٰ دیا تو انہیں مالیات کا قلمدان تھما دیا گیا۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایک بار پھر سلیم مانڈوی والا جنرل سیٹ پر رکن منتخب ہوئے۔ اور اس وقت ڈپٹی چیئرمین سینیٹ ہیں۔ سلیم مانڈوی والا کے والد اور آصف زرداری کے والد بھی آپس میں دوست تھے۔ کیونکہ دونوں کا بزنس بھی شروع میں ایک تھا۔ ایک زمانے میں سلیم مانڈوی والا کا خاندان نشاط سینما کا مالک تھا۔ جبکہ آصف زرداری کے والد حاکم علی زرداری نشاط سینما کے اونر تھے۔
چند روز قبل چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال اور سلیم مانڈوی والا کے درمیان ہونے والی ملاقات میں چیئرمین نیب نے انہیں سینیٹ میں تحریک استحقاق واپس لینے کی درخواست کی۔ تاہم سلیم مانڈوی والا نے یہ درخواست مسترد کر دی۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان منگی اور چیئرمین نیب کے خلاف سینیٹ میں تحریک التوا جمع کرا رکھی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں وہ دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں۔ نون لیگ اور جمعیت علمائے اسلام سمیت دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے انہیں اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔ یوں یہ معاملہ اب نیب اور سینیٹ کے درمیان معرکے کی صورت اختیارکرگیا ہے۔