امت رپورٹ:
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن اتحاد میں شامل پارٹیوں کے ممبران پارلیمنٹ کو اکتیس دسمبر تک استعفے اپنی مرکزی قیادت کے پاس جمع کرانے کا کہا تھا تاہم اس ڈیڈ لائن سے دس روز پہلے ہی ارکان کی اکثریت اپنے استعفے جمع کراچکی ہے۔ دوسری جانب تحریک کا مومنٹم برقرار رکھنے اور لاہور جلسے میں ہونے والے سیاسی نقصان کو پورا کرنے کے لئے گڑھی خدا بخش میں ستائیس دسمبر کو بڑا جلسہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
نون لیگی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کی جانب سے قیادت کے پاس استعفے جمع کرائے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اتوار کی شام تک پچاسی فیصد ارکان اپنے استعفے جمع کراچکے تھے۔ ایک لیگی رکن قومی اسمبلی کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے اگرچہ اکتیس دسمبر تک استعفے مرکزی قیادت کے پاس جمع کرانے کا کہا تھا۔ تاہم پارٹی قیادت نے اپنے تمام ارکان کو پچیس دسمبر تک یہ مرحلہ مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
مذکورہ رکن قومی اسمبلی نے جو خود بھی ایک ہفتہ قبل اپنا اسعفیٰ جمع کراچکے ہیں، مزید بتایا کہ ابھی شہباز شریف کا استعفیٰ موصول نہیں ہوا ہے۔ تاہم تیراسی ارکان قومی اسمبلی پر مشتمل لیگی پارلیمانی گروپ میں سے پچاسی فیصد کے قریب ارکان نے اپنے استعفے بھیج دیئے ہیں۔ البتہ یہ استعفے ابھی چاروں صوبوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ مثلاً خیبر پختون سے تعلق رکھنے والے لیگی ارکان نے اپنے استعفے صوبائی صدر امیر مقام کے پاس جمع کرائے ہیں۔ اسی طرح بعض ارکان نے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف کو اپنے استعفے بھیجے ہیں۔ ایک رکن نے نون لیگ سندھ کے صدر شاہ محمد شاہ کو استعفیٰ پیش کیا ہے تاہم پارٹی کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال نے ان رہنمائوں اور ارکان کو ہدایت کی ہے کہ تمام استعفے پچیس دسمبر تک نون لیگ کے مرکزی سیکریٹریٹ ماڈل ٹائون 181 لاہور میں جمع کرادیے جائیں۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے ذرائع نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سمیت اب تک اس کے اسّی فیصد کے قریب ارکان اسمبلی نے بھی اپنے استعفے مرکزی قیادت کو جمع کرادیئے ہیں۔ ارکان نے یہ تمام استعفے اپنے ہاتھ سے تحریر کئے ہیں۔ ذرائع کے بقول پیپلز پارٹی کی بھی کوشش ہے کہ اکتیس دسمبر کی ڈیڈ لائن کے بجائے ستائیس دسمبر تک تمام ارکان کے استعفے مرکزی قیادت کو مل جائیں۔ تاکہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش (لاڑکانہ) میں ہونے والے جلسے کے موقع پر اس کا اعلان کیا جا سکے۔
ذرائع نے بتایا کہ تمام ارکان کو اس لیے براہ راست اسپیکرکے نام اور ہاتھ سے تحریری استعفے لکھنے کی ہدایت کی گئی ہے کہ ان استعفوں کے حوالے سے شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے۔ جب اجتماعی استعفے دینے کا فیصلہ ہوجائے تو بغیر کسی ردوبدل کے یہ استعفے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے اسپیکروں کے پاس جمع کرادیئے جائیں۔ اس کی تصدیق این اے چھیالیس کرم ایجنسی سے منتخب پی پی رکن اسمبلی ساجد حسین طوری نے بھی کی۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے ساجد طوری کا کہنا تھا ’’میں نے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے نام کمپیوٹر سے ٹائپ کرکے اپنا استعفیٰ بھیجا تھا۔ تاہم یہ استعفیٰ مسترد کر دیا گیا اور مرکزی قیادت نے ہدایت کی کہ چیئرمین کے بجائے اسپیکر کے نام اپنا دستخط شدہ استعفیٰ ہاتھ سے لکھ کر بلاول ہائوس اسلام آباد میں جمع کرایا جائے۔ اب میں کل اپنا استعفیٰ ہاتھ سے لکھ کر بلاول ہائوس بھیجوں گا‘‘۔
ساجد طوری کے بقول سندھ کے ارکان بلاول ہائوس کراچی میں اپنے استعفے جمع کرارہے ہیں۔ جبکہ پنجاب اور خیبر پختون سے تعلق رکھنے والے ارکان کو بلاول ہائوس اسلام آباد میں استعفے جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والے جے یو آئی کے پندرہ ارکان اسمبلی پہلے ہی اپنے استعفے پارٹی سربراہ کے پاس جمع کراچکے ہیں۔ جبکہ بلوچستان اور خیبر پختون اسمبلیوں کے ارکان کی اکثریت نے بھی یہ عمل تقریباً پورا کرلیا ہے۔ اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی کے تین ارکان قومی اسمبلی نے چار روز پہلے اپنے استعفے پارٹی سربراہ اختر مینگل کے پاس جمع کرادیے تھے۔ پارٹی کے چوتھے ایم این اے اختر مینگل خود ہیں۔
ادھر بے نظیر بھٹو کی 13ویں برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش (لاڑکانہ) میں ستائیس دسمبر کو ہونے والے جلسے کی تیاریاں جاری ہیں۔ پی ڈی ایم ذرائع نے بتایا کہ اپوزیشن تحریک کا مومنٹم برقرار رکھنے کے لئے ہر برس ہونے والا یہ ایونٹ پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم سے منسوب کر دیا ہے۔ اب یہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے اجتماع کے ساتھ پی ڈی ایم کا جلسہ ہوگا۔ جس کی میزبان پیپلز پارٹی ہے۔
اس سلسلے میں پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن اتحاد میں شامل پارٹیوں کے سربراہوں کو ذاتی طور پر فون کرکے مدعو کیا ہے۔ چار روز قبل ہی بلاول بھٹو زرداری نے قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب شیر پائو، عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر امیر حیدر خان ہوتی اور نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک کو کال کرکے جلسے میں شرکت کی دعوت دی۔ جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے چیئرمین اختر مینگل کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کے موقع پر بلاول بھٹو نے انہیں ستائیس دسمبر کے جلسے کی انویٹیشن دی۔
ذرائع نے بتایا کہ مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن سمیت لاڑکانہ جلسے میں پی ڈی ایم کی تقریباً تمام قیادت موجود ہوگی۔ اس حوالے سے بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ لاہور جلسے کے حوالے سے ہونے والے سیاسی نقصان کو پورا کرنے کے لئے اس ایونٹ پر عوامی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا جائے۔ لاہور میں موجود نون لیگ کے ایک اہم عہدیدار نے بتایا کہ نون لیگ سندھ کے صدر شاہ محمد شاہ کو اس موقع پر زیادہ سے زیادہ کارکنان لے جانے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے چھبیس دسمبر کو نون لیگ کا کنونشن بھی بلایا گیا ہے۔ جبکہ لاہور سے مریم کے ہمراہ بھی کارکنان آئیں گے۔
مریم نواز نے جلسے کے لیے تقریر لکھنے کی تیاری شروع کر دی ہے تاہم عہدیدار کا کہنا تھا کہ ستائیس دسمبر کے جلسے سے نواز شریف خطاب نہیں کریں گے۔ دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام اس وقت تیئیس دسمبر کو شیڈول مردان ریلی کی تیاری کر رہی ہے۔ تاہم جے یو آئی رہنما راشد سومرو کو ستائیس دسمبر کے جلسے میں شرکت کے لئے کارکنوں کو متحرک کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ذرائع کے بقول لاڑکانہ ویسے بھی جے یو آئی کا مضبوط سیاسی مرکز ہے۔ لہٰذا جلسے میں ان کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہوگی اور یہ کہ سندھ میں چونکہ پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ یہاں شرکا کو کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ لہٰذا پی ڈی ایم قیادت کو امید ہے کہ لاہور جلسے کے برعکس وہ اس ایونٹ پر ایک بڑا اجتماع کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔