جنوبی وزیرستان: قبائلی رسم ژغ کے خلاف پہلا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ قبائلی رسم کے خلاف پہلا مقدمہ تھانہ اعظم ورسک جنوبی وزیرستان میں درج کیا گیا ہے۔
فاٹا انضمام کے بعد قبائلی رسم کے خلاف درج کیے جانے والے پہلے مقدمہ میں نامزد ملزم کو بھی پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔
درج مقدمہ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ملزم نے دھمکی دی تھی کہ اگر لڑکی کی شادی کسی اور سے کی گئی تو وہ پورے گھرانے کو قتل کردے گا۔
درج ایف آئی آر کے مدعی بادشاہ گل کا مؤقف ہے کہ اس کی بیٹی کی شادی پہلے سے ہی بھتیجے کے ساتھ طے ہے لیکن ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی ہے۔ مدعی کے مطابق ملزم عمر خان نے ان کے گھر کے باہر آکر فائرنگ بھی کی تھی۔
قبائلی علاقوں میں اس رسم کو بعض افراد غگ اور کچھ لوگ ژغ کہتے ہیں۔ اس رسم کے مطابق اگر کسی شخص کو کسی خاتون یا لڑکی سے شادی کرنی مقصود ہوتی تھی تو وہ اس کے گھر کے باہر آکر کہہ دیتا تھا کہ وہ فلاں خاتون یا لڑکی سے شادی کرے گا جس کے بعد دیگر گھرانوں سے اس لڑکی کے رشتے نہیں آتے تھے۔
پشتو زبان کے لفظ غگ کے معنی آواز لگانے یا اعلان کرنے کے ہیں۔ اس اعلان کو غگ یا ژغ بھی کہتے ہیں۔
ماضی میں اس طرح کے واقعات بہت پیش آتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں کمی آتی گئی۔
ملک کے دیگر علاقوں میں متدد ایسی روایات یا رسمیں موجود ہیں جنہیں دور جدید میں فرسودہ قرار دے کر ان کے خاتمے کے لیے قانون سازی بھی کی گئی ہے۔
اسی طرح اس روایت کے خاتمے کے لیے پی پی اور اے این پی نے مشترکہ طور پر 2013 میں قانون سازی کی جو صوبائی اسمبلی سے منظور ہوئی۔
خیبر پختونخوا اسمبلی سے منظور ہونے والے قانون کے تحت جرم ثابت ہونے پر مجرم کو زیادہ سے زیادہ سات سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے۔