کراچی میں شہری انتظامیہ کو کبھی نہ بننے والے منصوبے کے عوض 6 ارب 27 کروڑ روپے ادا کرنا ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق شہری انتظامیہ کو غیر ملکی کمپنی سے معاہدہ توڑنا مہنگا پڑگیا ہے اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
سابقہ شہری حکومت نے 2006 میں ملائیشین کمپنی کے ساتھ ایلی ویٹڈ ایکسپریس وے بنانے کا معاہدہ کیا تھا لیکن اختیار اور مالی وسائل نہ ہونے کے باوجود 35 کروڑ ڈالر کا معاہدہ درمیان میں ہی توڑنا پڑا۔
دستاویزات کے مطابق سٹی گورنمنٹ نے 2006 میں ایلی ویٹڈ ایکسپریس وے کا معاہدہ کیا تھا۔
معاہدہ ختم کرنے پر سندھ ہائی کورٹ نے ثالث کے ذریعے جرمانے کا تعین کیاتھا اور بلدیہ عظمیٰ کو ملائیشین کمپنی کو منصوبےکی کل لاگت کا 10فیصد دینے کا پابند قرار دیا گیا تھا۔
دستاویزات کے مطابق جرمانہ ادا نہ کرنے پر ہر سال 12فیصد سود بھی ادا کرنا ہوگا اور جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں اثاثوں کی نیلامی بھی کرنا پڑسکتی ہے۔
ایڈمنسٹریٹر کراچی لئیق احمد کا کہنا ہے کہ اثاثوں کے بغیر بلدیہ عظمیٰ کراچی کو نہیں چلایاجاسکتا، معاملے پر حکومت سندھ کو مدد کے لیے خطوط لکھے ہیں۔