دستخط کے لیے اوریجنل دستاویزات درکار تھیں جو حکومت نے تاخیر سے فراہم کیں-فائل فوٹو 
دستخط کے لیے اوریجنل دستاویزات درکار تھیں جو حکومت نے تاخیر سے فراہم کیں-فائل فوٹو 

’’حکومت کی بے حسی سے ڈاکٹرعافیہ کی رہائی کا سنہری موقع ضائع ہو گیا‘‘

امت رپورٹ:
امریکہ میں قید ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی رہائی کا ایک اور یقینی موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ اس معاملے سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ ماضی کے مقابلے میں یہ موقع اس لیے زیادہ اہم تھا کہ اس بارعافیہ کی فائل امریکی صدر ٹرمپ کی میز پر پہنچا دی گئی تھی۔ یہ وہ موقع تھا جب صدرٹرمپ اپنی رخصتی سے قبل متعدد قیدیوں کو عام معافیاں دے رہے تھے۔ ان میں سزائے موت کے منتظرقیدی شامل تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ واشنگٹن میں موجود عافیہ کے وکلا نے پاکستان میں ڈاکٹر فوزیہ سے رابطہ کرکے آگاہ کیا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب صدر ٹرمپ، وائٹ ہائوس سے اپنی رخصتی سے قبل بڑی تعداد میں قیدیوں کو عام معافی دے رہے ہیں توعافیہ کی رہائی کے امکانات روشن ہیں لہٰذا عافیہ کی دستخط شدہ اوریجنل فائل انہیں پہنچادی جائے تاکہ پراسس کو فوری آگے بڑھایا جا سکے۔

ذرائع کے بقول پارڈن اٹارنی آفس میں عافیہ کے اوریجنل ڈاکومنٹس اور حکومت پاکستان کا سرٹیفکیٹ جمع کرایا جانا ضروری تھا چنانچہ ڈاکٹر فوزیہ ان دستاویزات کے حصول کے لیے اسلام آباد پہنچ گئیں۔ انہوں نے وفاقی دارالحکومت میں پانچ دن قیام کیا۔ اس دوران مختلف وزرا اور مشیروں سے ملاقاتیں کیں۔ لیکن اوریجنل دستاویزات حاصل کرنے میں وہ ناکام رہیں۔

ذرائع کے مطابق دوسری جانب امریکہ سے عافیہ کے وکلا کا کہنا تھا کہ وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ مزید تاخیر کے نتیجے میں یہ یقینی موقع ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ کیونکہ بیس جنوری قریب آرہی تھی جب ٹرمپ نے وائٹ ہائوس سے روانہ ہو جانا تھا جب اوریجنل فائل کی فوری دستیابی میں تاخیر بڑھنے لگی تو پھر فیصلہ کیا گیا کہ اوریجنل فائل کی کاپی پر ہی پراسس آگے بڑھانے کی کوشش کی جائے۔

ذرائع کے مطابق خوش قسمتی سے پارڈن اٹارنی آفس نے عافیہ کی فائل کی فوٹو کاپی کو تسلیم کرلیا اور یوں کیس کی میرٹ سے متعلق عمل مکمل کرکے کاغذات تیارکرلیے گئے تھے تاہم جب پارڈن اٹارنی آفس سے یہ فائل ٹرمپ کی میز پر پہنچائی گئی تو یہ لیگل ایشو کھڑا ہوا کہ صدرکے دستخط کے لیے اوریجنل فائل کا ہونا ضروری ہے جس پرایک بار پھر حکومت سے رابطہ کرکے اوریجنل فائل کا مطالبہ کیا گیا۔ آخرکارحکومت نے اوریجنل فائل فراہم کر دی لیکن اس سے پہلے کہ عافیہ کی اوریجنل فائل پارڈن اٹارنی آفس میں پہنچائی جاتی اوراس پر صدر ٹرمپ کے سائن کرائے جاتے۔ کیپیٹل ہل کا واقعہ ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں واشنگٹن کو سیل کردیا گیا لہٰذا عافیہ کے وکلا اوریجنل فائل پہنچانے سے قاصر رہے کہ وہ امریکی دارالحکومت کے اندر داخل نہیں ہو سکتے تھے۔

کیپیٹل ہل کے واقعہ کے بعد سے نئے امریکی صدر جوبائیڈن کے حلف اٹھانے تک واشنگٹن میں کرفیو جیسا ماحول رہا۔ تمام دفتری امور چوپٹ تھے صدر ٹرمپ کی جانب سے معافی ناموں پر دستخط کا سلسلہ بھی تھم چکا تھا۔ لہٰذا عافیہ کی رہائی کا یہ ایک اور سنہری موقع پھر ضائع ہوگیا۔ عافیہ کے وکلا کا کہنا ہے کہ اگر حکومت پاکستان اوریجنل فائل دینے میں تاخیر نہ کرتی تو شاید عافیہ کی رہائی عمل میں آچکی ہوتی۔
اس سارے معاملے پر بات چیت کے لیے ڈاکٹر عافیہ کی بڑی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا ’’میں نے دنیا کی سب سے مشکل میز پرعافیہ کی فائل پہنچا دی تھی۔ حکومت ہمارا ساتھ دیتی تو آج قوم کی بیٹی جیل سے باہر ہوتی۔ عافیہ کی رہائی کے سلسلے میں پچھلے چند ماہ کے دوران بہت کچھ ہوتا رہا۔ لیکن آج پھر ہم اسی مقام پرآگئے ہیں، جہاں پہلے کھڑے تھے۔ عافیہ کے دستخط شدہ اوریجنل پیپرز حکومت نے آخری وقت تک دبائے رکھے اور جب فراہم کیے تو وقت نکل چکا تھا۔ عافیہ کی رہائی میں رکاوٹ ڈالنے والے حکمرانوں کو دنیا اور آخرت، دونوں جگہوں پر حساب دینا ہوگا‘‘۔

اوریجنل فائل کے حصول سے متعلق کوششوں کے بارے میں ڈاکٹر فوزیہ نے بتایا کہ اسلام آباد میں پانچ روزہ قیام کے دوران انہوں نے وزیر داخلہ شیخ رشید، وزیر اعظم کے معاون خصوصی بابراعوان اور سیکریٹری خارجہ سمیت دیگر اہم حکومتی عہدیداران سے ملاقاتیں کیں۔ لیکن صرف آسرے دیے جاتے رہے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید نے وزیر اعظم سے ملاقات کرا کے معاملہ حل کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ لیکن یہ وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ جبکہ بابر اعوان نے تو یہ مشورہ دے ڈالا کہ ٹرمپ کو بھول جائیں۔ بائیڈن آجائیں گے تو ان سے بات کی جائے گی۔

ڈاکٹر عافیہ کے بقول اس صورتحال میں انہوں نے امریکی پارڈن اٹارنی آفس والوں سے کہا کہ اگر اوریجنل ڈاکومنٹس ضروری ہیں تو پھر انہیں ویزہ دے دیں۔ وہ خود جاکر جیل میں عافیہ سے نئی دستاویزات پر دستخط کرالیں گی۔ انہیں ویزا تو نہیں دیا گیا۔ لیکن پارڈن آفس نے فوٹو کاپی کو تسلیم کرکے پراسس آگے بڑھانے کی ہامی بھر لی۔ اس سے آگے کیس کے میرٹ دیکھے جاتے ہیں کہ کیا کیس اس قابل ہے کہ اسے صدر کی ٹیبل پر دستخط کے لیے بھیجا جائے۔ یہ پراسس بھی فاسٹ ٹریک پرکلیئر کرالیا گیا تھا۔ تاہم آخری مرحلے یعنی صدر ٹرمپ کے دستخط پر آکر ایشو کھڑا ہوگیا کہ اس کے لیے اوریجنل فائل درکار تھی۔

جب تاخیری حربوں کے بعد یہ اوریجنل فائل عافیہ کے وکلا تک پہنچی تو کیپیٹل ہل پر ٹرمپ کے حامیوں کے حملے کے نتیجے میں واشنگٹن میں صورتحال خراب ہوچکی تھی۔ اس واقعہ کے بعد ٹرمپ کسی قسم کے دفتری امور نہیں نمٹا سکے۔ ڈاکٹر عافیہ کے بقول اس صورتحال نے ایک بار پھر حکمرانوں کا چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔ اب نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن کے سامنے عافیہ کا کیس نئے سرے سے پیش کرنا پڑے گا۔ ویسے بھی امریکی صدور معافی ناموں پر دستخط کرنے کا عمل عموماً اپنے آخری دور میں کرتے ہیں۔