پی پی پی اور پی ڈی ایم کے جن 7 سینیٹرز کے ووٹ مسترد ہوئے ان پر پہلے سے شبہ تھا، پی ڈی ایم ذرائع
پی پی پی اور پی ڈی ایم کے جن 7 سینیٹرز کے ووٹ مسترد ہوئے ان پر پہلے سے شبہ تھا، پی ڈی ایم ذرائع

سینیٹ ٹکٹوں کے حصول کی جنگ تیز ہو گئی

امت رپورٹ:
سینیٹ الیکشن نزدیک آنے کے ساتھ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اورنون لیگ کے اندر ٹکٹوں کے حصول کی جنگ تیز ہوگئی ۔

ذرائع نے بتایا کہ اس حوالے سے سب سے زیادہ مشکل کا شکار تحریک انصاف ہے کیونکہ اس کے امیدواروں کی تعداد زیادہ ہے۔ اگر تمام اسمبلیوں کے ارکان اپنی پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ دیتے ہیں تو پی ٹی آئی کو اکیس سے بائیس سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔ حکمراں پارٹی کے اندرونی ذرائع کے بقول ان اکیس بائیس سیٹوں کے ایک سو کے قریب خواہشمند ہیں۔ لیکن اصل جنگ صف اول کے امیدواروں کے درمیان ہے۔
تحریک انصاف نے سینیٹ الیکشن کے ٹکٹ دینے کے لیے وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں گیارہ رکنی پارلیمانی بورڈ تشکیل دیدیا ہے، بورڈ کے دیگرارکان میں گورنر سندھ عمران اسماعیل، خیبر پختون خوا کے گورنر شاہ فرمان، وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان، گورنر پنجاب چوہدری سرور، وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزداراور پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل عامر کیانی شامل ہیں۔

پارٹی ذرائع کے بقول اگرچہ سینیٹ ٹکٹ کے امیدواروں کی سفارش پارلیمانی بورڈ نے کرنی ہے۔ تاہم چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اس بار پارٹی کے دیرینہ اور وفادار رہنمائوں و عہدیداران کو بھی ٹکٹ دینے کا ذہن بناچکے ہیں۔ ان میں سیف اللہ نیازی سرفہرست ہیں جنہیں چیئرمین سینیٹ کا امیدوار نامزد کرنے کے حوالے سے بھی خاصی حد تک اتفاق ہوچکا ہے۔

سیف اللہ نیازی اس وقت پی ٹی آئی کے چیف آرگنائزر ہیں۔ انہیں اسلام آباد دھرنے اور مینار پاکستان کے گرائونڈ میں بڑے جلسے کے کامیاب انتظامات کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ تاہم جہانگیر ترین کے سیکریٹری جنرل بن جانے کے بعد ان کا چراغ مدھم ہوگیا تھا۔ جس پر ناراض ہوکر سیف اللہ نیازی نے پارٹی سے فاصلہ اختیار کرلیا تھا۔ جہانگیر ترین کے جانے کے بعد سیف اللہ نیازی کو مناکر دوبارہ پارٹی میں لایا گیا۔ ایک پی ٹی آئی عہدیدار کے مطابق سیف اللہ نیازی سے عمران خان کا خاص لاڈ ہے اورانہیں پی ٹی آئی چیئرمین کے منہ بولے بیٹے جیسی حیثیت حاصل ہے۔ سیف اللہ نیازی نے سن چھیانوے میں بائیس سال کی عمر میں پی ٹی آئی جوائن کی تھی۔

ذرائع نے بتایا کہ اسی طرح تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر اور دیرینہ رکن ارشد داد بھی سینیٹ ٹکٹ حاصل کرنے کے مضبوط امیدواروں میں شامل ہیں۔ بیرسٹر سلطان محمود کی قیادت میں ارشد داد اور سیف اللہ نیازی کو آزاد کشمیر الیکشن کی کمپین چلانے کا ٹاسک سونپا گیا ہے۔

ذرائع کے بقول اس بار پارٹی کے ایک اور دیرینہ وفادار ساتھی عمر سرفراز چیمہ کی لاٹری کھلنے کے امکانات بھی روشن ہیں۔ عمر سرفراز چیمہ پی ٹی آئی کے سیکریٹری انفارمیشن رہ چکے ہیں۔ تاہم پارٹی کی مقبولیت اوراقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل نظر انداز کیا گیا۔اس کا شکوہ وہ قریبی رفقا سے کرتے بھی رہے ہیں۔ عمر سرفراز چیمہ کو اس بار سینیٹ ٹکٹ دے کر شکایتوں کا ازالہ کرنے کی کوشش متوقع ہے۔

دوسری جانب پارٹی کے وفادار رہنمائوں میں شامل اعجاز چوہدری کو بھی اس بار سینیٹ ٹکٹ دینے پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی پنجاب کی دو خواتین عہدیداران ڈاکٹر زرقا تیمور اور تنزیلہ عمران نے بھی سینیٹ ٹکٹ کے لیے ہاتھ پیر مارنے شروع کر رکھے ہیں۔ ان دونوں عہدیداران نے گزشتہ برس پنجاب سے خواتین کی مخصوص نشست کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے لیکن ان کی لاٹری نہیں کھل سکی تھی۔ اسی طرح محمود مولوی اور اشرف قریشی بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔

پارٹی ذرائع کے مطابق سینیٹ ٹکٹ کے لیے اصل جنگ وزیراعظم کے مشیروں، معاونین خصوصی اور ان رہنمائوں کے درمیان چل رہی ہے جو دوسری پارٹیوں سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔ اس حوالے سے پچھلے ایک ماہ کے دوران بھرپور لابنگ کرنے والوں میں عبدالحفیظ شیخ، ملک امین اسلم، عبدالرزاق دائود، بابر اعوان، زلفی بخاری، فردوس عاشق اعوان اور شہزاد اکبر سرفہرست ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ جہاں سینیٹ ٹکٹوں کے امیدواران مشیروں اور معاون خصوصی کے درمیان ایک دوسرے کو کاٹ کر آگے بڑھنے کی کشمکش چل رہی ہے۔ وہیں پارٹی کے دیرینہ رہنمائوں کا اصرار ہے کہ وقتی طور پر پی ٹی آئی میں شامل ہونے والوں کے بجائے پارٹی کے پرانے اور وفادار ساتھیوں کو زیادہ نوازا جانا چاہئے۔

ذرائع کے مطابق اس صورتحال میں خاص طور پر شہزاد اکبرکو سینیٹ ٹکٹ کا ملنا کھٹائی میں پڑنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ اسی طرح عبدالحفیظ شیخ اور بابراعوان کے بارے میں بھی عمران خان کو پرانے ساتھی قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی بجائے پارٹی کے دیرینہ مخلص ساتھیوں کو سینیٹ ٹکٹ دیا جائے۔

اپنے دلائل میں پرانے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ عبدالحفیظ شیخ اور بابر اعوان پی ٹی آئی کا اقتدار ختم ہوتے ہی اڑان بھرلیں گے۔ ان کے ماضی کا ٹریک ریکارڈ بھی یہی بتاتا ہے۔ لہٰذا انہیں چھ سال کے لئے ایوان بالا میں پہنچانے کے بجائے پارٹی کے وفادار رہنمائوں کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ تاہم ذرائع کاکہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان ایک ایسے موقع پرجب معیشت سنبھالنے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں، عبدالحفیظ شیخ کو ناراض کرنا نہیں چاہتے۔ اسی طرح بابراعوان نے وزیراعظم کے اہم کیس لڑے ہیں۔ لہٰذا وہ ان کے بہت قریب ہیں۔ یوں پرانے ساتھیوں کی تجاویز زیادہ کارگر ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔

پارٹی ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ سینیٹ ٹکٹ دینے کے لئے تشکیل کردہ پی ٹی آئی پارلیمانی بورڈ کے ارکان کے درمیان بھی خاصی کشمکش متوقع ہے۔ کیونکہ ان میں بعض ایسے ارکان شامل ہیں، جو اپنے قریبی ساتھیوں یا رشتہ داروں کو سینیٹ ٹکٹ دلانا چاہتے ہیں۔ ان میں پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی اور چوہدری سرور سرفہرست ہیں۔

ادھر پیپلز پارٹی نے بھی سینیٹ الیکشن کے لئے امیدواروں سے درخواستیں طلب کرلی ہیں۔ یہ درخواستیں ایک ہزار روپے کے بینک ڈرافٹ کے ساتھ آٹھ فروری تک زرداری ہائوس اسلام آباد یا بلاول ہائوس کراچی میں بھیجنے کی تاکید کی گئی ہے۔

پی پی ذرائع کے مطابق جہاں بعض نئے چہروں کو ایوان بالا میں لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وہیں کم از کم چار ایسے پارٹی رہنمائوں کو دوبارہ سینیٹ ٹکٹ دینے پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے، جو گیارہ مارچ کو ریٹائر ہوجائیں گے۔ ان رہنمائوں میں سابق وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا اور شیری رحمن سرفہرست ہیں۔

ذرائع کے بقول عبدالرحمن ملک، پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے خاصے قریب ہیں۔ اسی طرح شیری رحمن پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو اور آصف زرداری دونوں کی گڈ بک میں شامل ہیں۔ جبکہ سلیم مانڈوی والا کو اس لئے دوبارہ سینیٹ ٹکٹ دینے پر غور کیا جارہا ہے کہ وہ چیئرمین نیب سے سینگ پھنسا چکے ہیں۔ گیارہ مارچ کو ڈپٹی چیئرمین شپ کے عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد ان کے تحفظ کی چھتری ہٹ جائے گی۔ تاہم دوبارہ محض سینیٹ رکن منتخب ہونے پر بھی انہیں نیب سے کسی حد تک پروٹیکشن حاصل رہے گی۔ دوسری جانب سسی پلیجو بھی ایک بار پھر سینیٹ ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے پیپلز پارٹی میں بھرپور لابنگ کر رہی ہیں۔

نون لیگ نے تاحال سینیٹ ٹکٹوںکی درخواست وصول کرنے کے لئے بورڈ تشکیل نہیں دیا ہے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کے بقول روایت پوری کرنے کے لئے بورڈ کی تشکیل تو ہوگی۔ تاہم بڑی حد تک یہ ذہن بنالیا گیا ہے کہ اس بار کن رہنمائوں کو سینیٹ ٹکٹ دینا ہے۔ نون لیگ کے ایک اہم عہدیدار کا کہنا ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم کچھ اس طریقے سے کی جائے گی۔

مریم نواز اور شہباز شریف گروپ سے ملاجلاکر سینیٹ امیدوار منتخب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان میں راجہ ظفر الحق، پرویز رشید اور محمد زبیر سب سے مضبوط امیدوار ہیں۔ ایک بردباراور سینئر رہنما ہونے کے ناطے راجہ ظفرالحق کو دوبارہ ٹکٹ کے حصول کے لیے بظاہرکسی چیلنج کا سامنا نہیں۔ جبکہ پرویز رشید کی سفارش مریم نواز نے کی ہے۔ ایک اہم پارٹی عہدیدار کا دعویٰ تھا کہ متذکرہ ناموں میں سابق گورنر سندھ محمد زبیر وہ رہنما ہیں، جن کو ٹکٹ دینے کی منظوری نواز شریف پہلے ہی دے چکے ہیں۔اس بار لاہور کے سابق میئر خواجہ حسان کو بھی سینیٹ ٹکٹ ملنے کے روشن امکانات ہیں۔

عہدیدار کے بقول اس راہ میں خواجہ سعد رکاوٹ ہیں۔ لیکن خواجہ حسان کو شہباز شریف کی خاص آشیرباد حاصل ہے۔ کچھ عرصہ پہلے شہباز شریف کی پیشی کے موقع پر دونوں خواجائوں کے درمیان شدید جھڑپ بھی ہوئی تھی۔ جب شہباز شریف کے سامنے خواجہ سعد نے لاہور میں پی ڈی ایم جلسے کی ناکامی کا ذمہ دار خواجہ حسان کو قرار دیا تھا۔ یہ کشیدگی تاحال برقرار ہے

۔ پارٹی عہدیدار کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب سینیٹ ٹکٹ کے لیے نون لیگ کے مختلف رہنما کوششوں میں مصروف ہیں تو نون لیگ برطانیہ کے صدر زبیر گل کو بھی یاد کرنا ضروری ہے، جو پچھلے تین برس سے دربدر ہیں۔ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے عہدیدار نے بتایا کہ سن اٹھارہ کے سینیٹ الیکشن کے لئے زبیر گل کو پارٹی نے پنجاب سے ٹکٹ دیا تھا۔ اس کے لیے زبیر گل کو اپنی برطانوی شہریت سے دستبردار ہوگئے تھے۔ بدقسمتی سے وہ سینیٹ الیکشن میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ یوں ناصرف انہیں اپنی برطانوی شہریت سے ہاتھ دھونا پڑا، بلکہ ایوان بالا تک ان کی رسائی بھی ممکن نہ ہوسکی۔

اب پچھلے تین برس سے زبیر گل دبئی میں مقیم ہیں۔ جبکہ ان کی تمام فیملی برطانیہ میں ہے۔ دربدر ہونے کے علاوہ زبیر گل کا کاروبار بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ عہدیدار کے مطابق دوبارہ برطانوی شہریت حاصل کرنے کے لیے زبیر گل کی جانب سے دائرکی جانے والی درخواست پر رواں ماہ کوئی فیصلہ متوقع ہے۔ اس بار سینیٹ ٹکٹ کے لیے زبیرگل کا نام زیر غور نہیں لایا گیا۔