چاند نظر آنے کےلیے چاند کی کم از کم عمر 20 گھنٹے 40منٹ ہو تب ہی دیکھا جاسکتا ہے
چاند نظر آنے کےلیے چاند کی کم از کم عمر 20 گھنٹے 40منٹ ہو تب ہی دیکھا جاسکتا ہے

’’چاند انسانی نیند اوراعصاب پراثرانداز ہوتا ہے‘‘

احمد نجیب زادے:
انسان کی نفسیات پر چاند کے اثرات سائنسی تحقیق میں بھی ثابت ہو چکے ہیں۔ کئی امریکی ماہرین نے چاند کو سمندر کی لہروں کے اتار چڑھاؤ سمیت قدرتی آفات سے بھی جوڑ رکھا ہے۔ لیکن چاند کی روشنی بارے میں نئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ چاند انسانی نیند اور اعصاب پراثرانداز ہوتا ہے۔ سائنس ایڈوانسز نامی جریدے میں شائع مضمون کے مطابق لوگوں کی نیند کے رجحانات چاند کے گھٹنے یا زیادہ ہونے پر منحصر ہیں۔ یعنی چودھویں کی رات سے کچھ روز قبل لوگ شام میں دیر سے سوتے ہیں اور ان کی نیند کا دورانیہ دوسرے دنوں کے مقابلے میں کم ہو جاتا ہے۔

یونیورسٹی آف واشنگٹن اور ارجنٹائن کی نیشنل یونیورسٹی آف قلمس کی یہ مشترکہ تحقیق شہروں اور دیہی علاقوں کے رہائشی مرد و خواتین کے نیند کے رجحانات کے مطالعہ پر مبنی ہے۔ جس میں ارجنٹائن کی آبائی قوم توباقام کے لوگ اور امریکی ریاست واشنگٹن کے شہر سیاٹل کے طلبا بھی شامل ہیں۔ اس تحقیق میں شامل انسانی گروہ میں بجلی کی سہولت اور سہولت کے بغیر رہنے والے باشندے دونوں ہی شامل تھے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ چاندنی راتوں میں ان کا سونے کا دورانیہ کم ہوا اور چاند کی روشنی کے بغیر ان کی نیند اچھی اور طویل آئی۔ بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ چاند کی روشنی انسانی سوچ، نفسیات، افعال اور صلاحیتوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کیونکہ چاندکی روشنی یا مقناطیسی کشش ہی کا اثر ہے کہ ہماری دنیا کے سمندر چاند کی روشنی میں متلاطم رہتے ہیں اور چودھویں رات کو ان کے مدوجزر میں خاصی شدت پائی جاتی ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ چاند کی قوت ثقل یا کشش کا اثر سمندر کی لہروں پر بھی پڑتا ہے اور چاند کے گھٹنے بڑھنے کے اثرات نباتات اور حیوانات پر بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ بعض امریکی اور جرمن ماہرین کا کہنا ہے کہ پورے چاند کے اثرات انسانی نفسیات پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ قدیم یونانی فلسفی اور سائنسدان ارسطو اور تاریخ دان پلینی کا اصرار تھا کہ سمندر کی طرح چاند کی مختلف حالتوں کا پودوں، جانوروں اور انسانوں پر اثر پڑتا ہے۔ دماغ بھی ایک مائع کیفیت رکھتا ہے۔ اس لیے پورے چاند کے موقع پر انسانی دماغ میں تلاطم خیزی اور مدوجزری کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں۔

سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ چاند کا ہر ماہ مختلف مرحلوں میں گزرنے کا شہروں میں مقیم لوگوں کی نیند پر اثر دیہات میں موجود انسانوں کی نسبت کم ہوتا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بجلی کی سہولت حیاتیاتی گھڑی کے قدرتی سائیکل کے دوران نیند کے اوقات کار پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کئی سائنس دانوں کا استدلال ہے کہ انسانوں کا انداز حیات کا قدرتی سائیکل در حقیقت چاند کے گھٹنے اور بڑھنے سے جڑا ہوا ہے۔

یونیورسٹی آف واشنگٹن اور ارجنٹائن کی نیشنل یونیورسٹی آف قلمس کی تحقیق میں شامل ارجنٹائن کی مقامی کمیونٹی توباقام کے 100 انسانوں کو کلائی پر مانیٹر پہنائے گئے۔ اس تحقیق میں شامل کچھ لوگوں کو بجلی کی سہولت میسر تھی اورکچھ بجلی کے بغیر رہ رہے تھے۔ جبکہ کچھ لوگوں کو محدود دورانیہ کیلئے بجلی کی سہولت میسر تھی۔ تحقیق میں شامل ان لوگوں کی نیند کے اوقات اور انداز کے نمونے چاند کے ساڑھے 29 دن پر محیط پورے دو مہینوں تک اکٹھے کیے گئے۔ جب ان کا تجزیہ کیا گیا تو علم ہوا کہ لوگ چودھویں کے چاند سے تین سے پانچ دن قبل کم سے کم سوتے ہیں اور انہیں نیند بھی دیر سے آتی ہے۔ سائنسی مشاہدات کے مطابق انسانوں کی نیند میں فرق 46 منٹ سے ایک گھنٹے کا محسوس کیا گیا۔ جبکہ کچھ لوگ سونے کیلیے بھی نصف گھنٹہ تاخیر سے بستر پر گئے۔

کئی مطالعاتی جائزوں سے ظاہر ہوا ہے کہ چودھویں کا چاند انسانی مزاج اور صحت پر بھی اثرات مرتب کرتا ہے۔ لیڈز یونیورسٹی آسٹریلیا کا ایک مطالعاتی جائزہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ بڑھتے چاند کی تاریخوں میں ڈاکٹروں کے پاس زیادہ مریض جاتے ہیں۔ جبکہ ایک طبی مطالعے میں بتایا گیا تھا کہ چاند راتوں میں دمے کے مریضوں کو زیادہ دورے پڑتے ہیں۔ ایک زمانہ میں یہ بھی سمجھا جاتا تھا کہ چاند کی کشش پانی کی طرح انسانی خون کو بھی متاثر کرتی ہے۔

اس بارے میں کچھ محققین کا کہنا تھا کہ پورے چاند کی راتوں میں خون کی دماغ کی جانب گردش بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے پاگل پن کے دورے میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ چاندنی رات کے پاگل پن کے دور ے کے اس نظریہ کو خاصی شہرت ملی۔ ایک صدی قبل برطانیہ میں لفظ لیونیسی (Lunacy) اسی حالت کے قانونی اظہار کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ جس کے مطابق چاند کے مختلف مراحل میں کسی شخص کا اپنے دماغ پر اختیار قائم نہیں رہتا اور اس سے ایسی حرکات سرزد ہو سکتی ہیں جن سے عام حالات میں وہ گریزکرتا ہے۔ 18 ویں صدی سے برطانیہ کی قانونی کتابوں میں ’لیونیسی ایکٹ‘ کا سول رائٹس کے ساتھ ذکر شامل تھا۔ 1850ء میں ڈاکٹر جان کونولی کی کتاب ’فیمی لیئر ویوز آف لیونسی اینڈ دی لیونیٹک لائف‘میں بہت سے ایسے انکشافات کئے گئے کہ لوگ اپنا جرم چھپانے کیلئے دماغی حالت، غصہ، جنون، بے اختیاری جیسی خود ساختہ کیفیات کا سہارا لیکر قانون سے مراعات حاصل کرلیتے ہیں اور اپنے جرائم کو چاند کی روشنی کے اثرات کا سہارا لیکر چھپاتے ہیں۔

برطانوی پارلیمنٹ نے رواں صدی میں لیونیسی ایکٹ کو ختم کر کے اسے دماغی صحت کا قانون 1959ء کا نام دیدیا اور اب اس قانون کے تحت صرف دماغی مریضوں کو ہی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ امریکی ماہرین کے مطابق چودھویں کے چاند کے زمین پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جو جوار بھاٹے کے علاوہ انسانی نفسیات پر بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ جبکہ چاند راتوں میں نفسیاتی دورے، ڈپریشن، خودکشی اورقتل کے واقعات سمیت حادثات اورکئی دوسرے جرائم بڑھ جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ریاست کیلیفورنیا میں منعقدہ سائنسی نمائش میں ایک طالبِعلم’برائن پرن‘ نے ایک دلچسپ پراجیکٹ بناکر اس کا نام ’بیج اگائو اور پودوں کی افزائش پر چاند کا اثر‘ رکھاتھا۔ اس طالبعلم نے چاند کی گردش کے حساب سے کئی اقسام کے پودے کاشت کئے۔

برائن کا کہنا تھا کہ چاند کے ہر مرحلہ کے شروع ہونے سے دو روز پہلے اس نے چھ مولی اور چھ سویابین کے بیجوں کو کاشت کیا۔ نئے چاند کے دوران مولی اور سویابین دونوں کے بیج تیزی سے اگے اور دوسرے تیسرے اور چوتھے دورانیوں سے بہتر رہے۔ پہلے مرحلے میں کاشت کیے ہوئے مولی کے پودے پرورش پانے میں باقی مراحل کی نسبت زیادہ کامیاب رہے۔ جبکہ سویابین کے پودے جو مکمل چاند کے دور یا پونم میں کاشت کئے گئے تھے۔ دوسرے پودوں کی نسبت تیزی سے افزائش پاکر5.4 سنٹی میٹر زائد بڑے ہوئے۔ اس تجربہ سے یہ ثابت ہوگیا کہ چاند انسانوں کے ساتھ ساتھ پودوں کی افزائش پراثرانداز ہوتا ہے۔