علامہ ابن جوزیؒ کے پوتے ابو المظفر کہتے ہیں کہ ابن عقیل نامی شخص نے اپنے بارے میں بتایا کہ ایک مرتبہ جب میں طواف کر رہا تھا تو میری نظر موتیوں کے ایک قیمتی ہار پر پڑی، جس کے موتی سرخ لڑی میں پروئے ہوئے تھے، میں نے اسے اٹھایا، کچھ دیر کے بعد ایک بوڑھا نابینا شخص ہار تلاش کرتے ہوئے ادھر آنکلا، وہ ہار لانے والے کو سو دینار کا انعام دینے کا اعلان بھی کر رہا تھا، میں نے اسے ہار واپس کردیا، اس نے دینار دینا چاہے تو میں نے انکار کردیا اور شام کی طرف روانہ ہو گیا، یہاں تک کہ بیت المقدس کی زیارت نصیب ہوئی۔
اب میرا واپس بغداد جانے کا ارادہ تھا، مگر زاد راہ ختم ہو چکا تھا اور بھوک نے بے تاب کر رکھا تھا، چنانچہ سردی اور بھوک کی شدت سے میں نڈھال ہو کر حلب کی ایک مسجد میں پہنچا تو لوگوں نے مجھے نماز پڑھانے کے لیے آگے کردیا، نماز سے فارغ ہو کر انہوں نے مجھے کھانا کھلایا، چونکہ رمضان کی آمد آمد تھی، لوگوں نے کہا:
ہمارے امام صاحب انتقال کرگئے ہیں، لہٰذا آپ اس مہینے میں ہمیں نمازیں پڑھایئے، میں نے حامی بھرلی، پھر انہوں نے کہا: ہمارے امام صاحب کی ایک بیٹی ہے، ہم اس سے آپ کا نکاح کردیتے ہیں، چنانچہ وہ میرے نکاح میں آئی۔
ہمارے نکاح کو ایک سال گزرا تھا کہ رب تعالیٰ نے ہمیں ایک بچے سے نوازا، چند دن کے بعد ہوا کیا کہ اچانک میری نظر اپنی بیوی کے گلے پر پڑی تو وہی ہار مجھے نظر آیا، جو میں نے طواف کے دوران پایا تھا، پھر میں نے بیوی کو سارا قصہ سنایا تو وہ کہنے لگی، وہ نابینا میرے والد تھے اور وہ ہار کے ملنے کے بعد ہر وقت یہ دعا کرتے تھے کہ یا الٰہی! میری بیٹی کو اس ہار لوٹانے والے شخص جیسا نیک شوہر عطا فرما، چناںچہ خدا تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرلی۔
(سیر اعلام النبلاء صفحہ نمبر 586، ج 12)