عظمت خان:
سندھ اسمبلی میں تحریک لبیک کے تین اراکین کے ووٹ سینیٹ انتخابات میں خاصی اہمیت اختیار کرچکے ہیں۔ تاہم ٹی ایل پی نے پیپلز پارٹی سمیت کسی سیاسی جماعت کو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے حلقوں میں ترقیاتی پیکیجز کی ’’پر کشش آفر‘‘ قبول کرنے کے بجائے تحریک نے سینیٹ کیلئے یشاء اللہ شاہ کو اپنا امیدوار نامزد کردیا ہے۔ سینیٹ کی جنرل سیٹ کیلئے ان کے کاغذات جمع بھی کرا دیئے گئے ہیں۔
سینیٹ کے الیکشن کیلئے ملک بھر میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے تیاریاں کی جارہی ہیں۔ ممبران صوبائی سے رابطے بھی کئے جارہے ہیں۔ جبکہ ’’لین دین‘‘ کی بعض ویڈیو بھی وائرل ہو چکی ہیں۔ ایسے میں آزاد امیداروں اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کے اراکین اسمبلی بھی خاصی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایسے امیداروں پر ’’محنت‘‘کی جارہی ہے جو آزاد حیثیت میں اسمبلی میں موجود ہیں یا ایسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، جس کی تین صوبائی اسمبلی میں صرف دو، تین ہی سیٹیں ہیں۔ ایسے میں تحریک لبیک پاکستان کے سندھ میں تین جیتنے والے تین اراکین اسمبلی کافی اہمیت اختیار کر گئے ہیں کہ وہ کس جانب جائیں گے۔
واضح رہے کہ سندھ اسمبلی میں اس وقت تین ممبران اسمبلی ایسے ہیں جن کا تعلق تحریک لبیک پاکستان سے ہے۔ ان میں مفتی قاسم فخری ضلع ویسٹ صوبائی اسمبلی کے حلقہ 115 منتخب ہوئے تھے۔ دوسرے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی ضلع سائوتھ کے حلقہ 107سے ہیں۔ جبکہ تیسری ممبر صوبائی اسمبلی سلمیٰ ثروت ہیں جو خواتین کی ریزرو نشست پر ہیں۔
مذکورہ تینوں اراکین اسمبلی سندھ حکومت کے اتحادی بنے ہیں اور نہ ہی مذکورہ تینوں اراکین اپوزیشن میں گئے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کے طور پر پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی جانب سے مشترکہ کردارادا کیا جارہا ہے۔ ادھر سینیٹ کے الیکشن قریب آتے ہی سیاسی مبصرین کاکہنا ہے کہ سندھ اسمبلی میں تینوں ٹی ایل پی اراکین اسمبلی اہمیت اختیار کر گئے ہیں کہ ان کے تین ووٹ کس جانب جائیں گے۔ تاہم تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے سینیٹ کی جنرل نشست کیلئے اپنے امیدوار یشاء اللہ شاہ کے کاغٖذات نامزدگی جمع کرائے گئے ہیں۔ ان کی کامیابی کیلئے ٹی ایل پی نے دیگر جماعتوں سے ووٹ لینے کیلiے رابطوں کا فیصلہ کیا ہے۔
اس حوالے سے سندھ اسمبلی میں تحریک لبیک کے ایم پی اے مفتی قاسم فخری نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ہمارے ووٹ کا اہل کوئی نظر نہیں آرہا ۔ سینیٹ کے الیکشن میں اس وقت شوریٰ کا ذہن یہ ہے کہ ہم نے سینیٹ کی جنرل نشست پر جو اپنا امیدوار کھڑا کیا ہے، اس کیلiے ہم باقی جماعتوں کے پاس جائیں گے اور ان سے ووٹ مانگیں گے۔ کیونکہ ہم ایک سیاسی جماعت ہیں اور ہم نے ایک سسٹم متعارف کرایا ہے۔ لوگوں نے ہم پر اعتماد کیا ہے اور ہم سینیٹ یعنی ایوان بالا میں بھی لوگوں کی اس طاقت کو پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہم نے اس پر ہوم ورک بھی کیا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ بعض جماعتوں کے پاس اپنے سینیٹ امیدواروں کو جتوانے کے بعد بھی ووٹ بچتے ہیں، جن سے ہم اضافی ووٹ مانگ سکتے ہیں۔
مفتی قاسم فخری کا کہنا تھا کہ ہم سے پیپلز پارٹی کے بعض وزرا نے ذو معنی انداز میں بات کی ہے اور کہا ہے کہ ہمارے حلقوں میں ترقیاتی کام کرائیں گے۔ مگر ہم جہاں سے جیت کر آئے ہیں، آخر وہ عوام بھی اس صوبے کا حصہ ہیں۔ لہٰذا ترقیاتی کام کرنا یا نہ کرانا، سندھ حکومت کی اپنی ذمہ داری ہے۔ کراچی کے کئی علاقوں میں پیپلز پارٹی نے کام کرائے ہیں، مگر ہمارے حلقوں میں اس طرح کام نہیں کرائے جارہے ہیں، جس طرح دیگر حلقوں میں کام کرائے جارہے ہیں۔
اس حوالے سے تحریک لبیک پاکستان کے سینیٹ کے امیدوار یشاء اللہ شاہ عرف جیلان شاہ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بدر کا میدان لگے تو وہاں نکلنا شرط ہے۔ ہم امید کرتے کہ بعض لوگوں کی غیرت ایمانی ضرور ان کو جھنجھوڑے گی کہ وہ خود ہمیں ووٹ دیں۔ ہمارا یقین ہے کہ ہمارا میدان میں آنا ہی کافی ہے اور ہمیں قوی امید ہے کہ اللہ تعالی نے کامیابی لکھی ہوئی ہوئی، تو ہمیں ضرور کامیابی ملے گی۔