مزید دیوار سے لگایا گیا تو پی ٹی آئی خیبرپختون خوا تقسیم ہوجائے گی- ذرائع- فائل فوٹو
 مزید دیوار سے لگایا گیا تو پی ٹی آئی خیبرپختون خوا تقسیم ہوجائے گی- ذرائع- فائل فوٹو

نوشہرہ میں شکست پر بعض پی ٹی آئی رہنما خوش

امت رپورٹ:
خیبر پختون کے ضلع نوشہرہ میں پی کے 63 پر ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی شکست پر پرویز خٹک مخالف گروپ خوشی سے سرشار ہوگیا۔ پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں سے لے کر مرکزی قیادت تک مسلم لیگ (ن) کی جیت پر دل میں خوش ہیں۔

پی ٹی آئی خیبرپختون کے اندرونی ذرائع نے بتایا ہے کہ پرویز خٹک کی جانب سے جہانگیر ترین اور عمران خان کی حکومت کے بارے میں بعض ویڈیوز منظر عام پر آنے کے بعد اعلیٰ سطح سے لے کر پی ٹی آئی کے صوبائی رہنمائوں تک نے پرویز خٹک کو سبق سکھانے اور انہیں اپنی سیاسی حیثیت دکھانے کیلئے نا صرف پرویز خٹک کے خاندانی اختلافات کو ہوا دی، بلکہ پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک جو صوبائی وزیر ہیں اور جمشیدالدین کاکا خیل کے بیٹے میاں عمر کو ٹکٹ دینے پر نا راض تھے، ان کی بھائی سے صلح کرنے کی بجائے تماشہ دیکھتے رہے، جس کے نتائج سامنے آگئے۔ پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ خلوت میں بعض پارٹی رہنما تحریک انصاف کی شکست پر خوش نظر آرہے ہیں کہ وزیراعلیٰ محمود خان اور پرویز خٹک کو ان کی حیثیت کا پتہ چل گیا۔ تاہم عمران خان اس ہار پر پرویز خٹک اور محمود خان سے باز پرس کریں گے۔ کیونکہ اس شکست سے صوبے میں پی ڈی ایم کی مقبولیت کا اندازہ بھی ہورہا ہے۔ تاہم مجموعی طور پر خاندانی اختلافات اور پی ٹی آئی کے اندر بعض رہنمائوں کے عدم تعاون پر پی ٹی آئی اس نشست سے محروم ہوگئی۔ اسی ضمنی الیکشن کے دوران ایک دفعہ جہانگیر ترین کے بارے میں ایک بار پرویز خٹک کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ وہ جس کو آسمان پر لے جانا چاہتے ہیں لے جا سکتے ہیں اور جس کو گرانا چاہتے ہیں گرا سکتے ہیں۔ اسی لیے پی ٹی آئی کے بعض رہنما اس ضمنی الیکشن میں پرویز خٹک کو ان کی حیثیت یاد دلانے کی کوشش کر رہے تھے، جس میں وہ کامیاب ہو گئے۔

اس میں سب سے زیادہ نقصان اے این پی کو ہوا کہ نوشہرہ اے این پی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں سے ماضی میں میاں افتخار حسین سمیت کئی اے این پی رہنما کامیاب ہوئے ہیں۔ اس مرتبہ اے این پی یہاں تیسرے نمبر پر رہی۔ جبکہ تحریک لبیک جس کی اعلیٰ اور صوبائی قیادت مہم میں بھی حاضر نہیں تھی، اس کے امیدوار نے چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ اس سے مستقبل میں تحریک لبیک کی عوامی مقبولیت کا اندازہ ہورہا ہے۔ جبکہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی یہ تجویز بھی کامیاب ہوگئی کہ اگر مشترکہ امیدوار کھڑے کریں گے تو جیت جائیں گے۔ نوشہرہ میں یہ تجربہ کامیاب رہا۔ پی کے 63 نوشہرہ پر ضمنی انتخابات میں حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو بڑا دھچکا لگا ہے اور پی ڈی ایم کے حمایت یافتہ امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہوا۔ جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار تیسرے اور تحریک لبیک کے امیدوار چوتھے نمبر پر رہے۔

نوشہرہ میں سابق ایم پی اے میاں جمشیدالدین کاکا خیل مرحوم کی وفات سے خالی ہونے والی نشست پی کے 63 پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں چار امیدوار مدمقابل تھے جس میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے میاں محمد عمر کاکاخیل، پی ڈی ایم کے حمایت یافتہ امیدوار مسلم لیگ(ن) کے صوبائی ترجمان اختیار ولی خان، عوامی نیشنل پارٹی کے میاں وجاہت اللہ کاکا خیل اور تحریک لبیک کے علامہ مفتی ثنا اللہ سیفی شامل تھے۔ کامیاب ہونے والے پی ڈی ایم کے حمایت یافتہ مسلم لیگ (ن) کے صوبائی ترجمان اختیار ولی خان نے 21 ہزار 222 ووٹ حاصل کئے۔ حکمران جماعت کے امیدوار میاں محمد عمر کاکا خیل نے 17 ہزار 23 ووٹ لئے۔ جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے میاں وجاہت کاکا خیل 4279 ووٹ لے کر تیسرے نمبر اور تحریک لبیک پاکستان کے علامہ ثنا اللہ سیفی رضوی 619 ووٹ لے کر چوتھے نمبر پر رہے۔

مرکز اور صوبے میں حکمران جماعت تحریک انصاف نے 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں نوشہرہ سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی تمام نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے دیگر جماعتوں کو وائٹ واش کیا تھا۔ نوشہرہ سے قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں پر پرویز خٹک اور عمران خٹک نے کامیابی حاصل کی تھی۔ جبکہ نوشہرہ سے صوبائی اسمبلی کے حلقوں پی کے 61 پر پرویز خٹک، پی کے 62 پر محمد ادریس، پی کے 63 پر میاں جمشید الدین، پی کے 64 پر پرویز خٹک اور پی کے 65 پر خلیق الرحمان نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح نوشہرہ سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 25 پر پرویز خٹک اور این اے 26 پر عمران خٹک نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔ تاہم گزشتہ روز ہونے والے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف اپنی نشست نہ بچا سکی اور مسلم لیگ (ن) کے امیدوار نے یہ نشست اپنے نام کرلی۔

نوشہرہ سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیابی کے بعد خیبر پختون اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد 7 ہو جائے گی۔ نو منتخب رکن اسمبلی کے 3 مارچ سے قبل حلف اٹھانے کی صورت میں مسلم لیگ (ن) کیلئے سینیٹ انتخابات میں فائدہ ہوگا۔ صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد اس سے پہلے 6 تھی۔ جبکہ حکمران جماعت تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 95 سے کم ہو کر 94 رہ گئی ہے۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ خیبرپختون محمود خان نے نوشہرہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی شکست پر سخت نوٹس لیتے ہوئے ضمنی الیکشن کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے، جس کی بنیاد پرمستقبل کے لیے لائحہ عمل وضع کیا جائے گا۔

صوبائی حکومت کے ترجمان کامران خان بنگش نے ضمنی انتخابات کے حوالے سے موقف جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ محمود خان نے کرم الیکشن میں بہترین نتائج پر مبارکباد اور عوام کا شکریہ ادا کیا ہے۔ تاہم نوشہرہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی ہار پر وزیراعلیٰ نے تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے اورمستقبل کا لائحہ عمل اسی بنیاد پر طے کیاجائے گا۔ نوشہرہ کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی شکست کی ایک وجہ پی ڈی ایم کے اتحاد کو بھی قرار دیا جارہا ہے جہاں قومی وطن پارٹی، جے یو آئی (ف) اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعتوں نے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ ضمنی الیکشن سے قبل مسلم لیگ (ن)کی نائب صدر مریم نواز کے جلسے کے باعث اختیار ولی خان کی پوزیشن مزید مضبوط ہو گئی تھی۔

نوشہرہ کے جس حلقے پر ضمنی الیکشن ہوا، وہاں کے عوام کو پینے کے صاف پانی کے مسائل سمیت بجلی اور سوئی گیس جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تحریک انصاف حکومت کی مرکز میں ڈھائی سال اور صوبے میں ساڑھے سات سال حکومت کے باوجود عوام کے مسائل حل نہیں ہوئے۔ تبدیلی کے نام پر اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف عام آدمی کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی نہ لا سکی۔ غریب مزید غریب ہو گیا اور اب دو وقت کی روٹی کیلئے بھی دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔

نوشہرہ کا مذکورہ حلقہ حکومتی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے، جبکہ حلقے کے عوام کے مطابق انہوں نے ووٹ کے ذریعے پسماندگی کا جواب دیا ہے۔ ادھر پی ڈی ایم کے حمایت یافتہ امیدوار کی کامیابی کے بعد حلقے میں ان کے حجرے پر مبارکباد دینے والوں کا تانتا ہفتے کے روز بندھا رہا اور بڑی تعداد میں لوگوں نے انہیں کامیابی پر مبارکباد دی۔