امت رپورٹ:
پشتون تحفظ موومنٹ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ سرپرستوں کے اختلافات اورایجنڈے پرعدم اعتماد کی وجہ سے محسن داوڑ کی قیادت میں ایک نئی قوم پرست جماعت بنانے کیلیے تگ و دو شروع کردی گئی ہے۔ جس کیلئے آئین سازی اور منشور پر کام بھی شروع کر دیا گیا ہے۔
ادھر منظور پشتین نے اپنی تحریک کو دو نکاتی ایجنڈے سے آگے چلانے سے انکارکردیا۔ گزشتہ روز پی ٹی ایم کے رہنما افراسیاب خٹک کی صدارت میں پارٹی کا ایک اہم اجلاس ہوا۔ جس میں محسن داوڑ، جمیلہ گیلانی، بشریٰ گوہر سمیت کئی قوم پرستوں، صحافیوں اور دانشوروں نے شرکت کی۔
پی ٹی ایم کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اس اجلاس سے قبل چار خفیہ اجلاس ہوئے تھے جس میں پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین سے کہا گیا تھا کہ ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کے ذریعے آئندہ بلدیاتی و عام انتخابات میں حصہ لے کر پی ٹی ایم کے لوگوں کو کامیاب کرایا جائے۔ جو اس صوبے میں اسپیشل گروپ کے طور پر سامنے آئے گی۔ جبکہ قومی اسمبلی میں بھی ان کی ایک حیثیت ہو جائے گی۔
اے این پی، قومی وطن پارٹی، مزدور کسان تحریک اور دیگر قوم پرستوں کے نوجوانوں اور لیڈروں کو اس نئی جماعت میں شامل کیا جائے گا۔ تاہم منظور پشتین نے چاروں اجلاسوں میں یہ موقف اپنایا کہ ان کو سیاست کا کوئی شوق نہیں۔ انہوں نے پی ٹی ایم صرف دو نکاتی ایجنڈے کیلئے بنائی ہے۔ اگر پاکستان کے ادارے اور حکومت ان کے ساتھ بیٹھ کر اس دو نکاتی ایجنڈے پر پیش رفت کرتے ہیں تو ان کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ ایک لاپتہ افراد کی مکمل بازیابی اور دوسرا وزیرستان آپریشن کے حوالے سے ایک کمیشن کی تشکیل۔ ان دو بنیادی مطالبات کے علاوہ ان کا کوئی مطالبہ نہیں۔ لہذا اگر لاپتہ تمام افراد بازیاب ہوجاتے ہیں اور ایک کمیشن بناکر قبائلیوں کی بحالی کا کام مکمل کیا جاتا ہے تو ان کی تحریک کو چلانے کا مقصد پورا ہو جائے گا۔
ذرائع کے مطابق اس موقف کی علی وزیر، سید عالم محسود اور دیگر نے حمایت کی۔ تاہم محسن داوڑ، جمیلہ گیلانی، بشریٰ گوہر، افراسیاب خٹک سمیت کئی دیگر سیاسی جماعت کی تشکیل کے حق میں ہیں کہ ایک قوم پرست سیاسی جماعت کی تشکیل کی جائے۔ جو پختونوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھائے اور اس کا محور اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور پنجاب ہو۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سرپرست، منظور پشتین کے دو نکاتی ایجنڈے سے اتفاق نہیں کرتے۔ اس لیے ان سرپرستوں نے بھارت، افغانستان، امریکا اور خاص کر لندن میں پی ٹی ایم کے حامیوں سے کہا ہے کہ وہ پی ٹی ایم کے رہنمائوں پر ایک سیاسی جماعت بنانے کیلئے دبائو ڈالیں۔ تاکہ ریاستی جبر کے حوالے سے اقوام متحدہ اور دیگر اداروں میں آواز اٹھانا آسان ہو جائے۔ چونکہ غیر سیاسی تنظیموں کیلئے آواز اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے لندن میں مقیم سوات سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت امریکا میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی، بھارت میں ڈاکٹر نجیب کے اہلخانہ اور افغان سیاستدان ایک سیاسی جماعت کی تشکیل کیلیے پی ٹی ایم پر دبائو ڈال رہے ہیں۔
ان سرپرستوں کا کہنا ہے کہ وہ اگر سیاسی جماعت بنائیں تو ان کیلئے آواز اٹھانا آسان ہو جائے گا۔ اس صورت میں پاکستانی ریاست اور اداروں کو سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈائون اور ان کے خلاف کارروائیوں میں مشکلات کا بھی سامنا ہو گا اور امریکا کی نئی انتظامیہ کی صورت میں یہ موقع ہے کہ ایک سیاسی قوم پرست جماعت بنائی جائے اور اے این پی، قومی وطن پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سے قوم پرستوں کو اس میں شامل کیا جائے۔ بلوچستان اور پشتون قوم پرستوں پر مشتمل اتحاد تشکیل دے کر انہیں مضبوط بنایا جائے۔ تاہم ذرائع کے بقول منظور پشتین اور ان کے ساتھی اس پر متفق نہیں ہو سکے۔ لہذا محسن داوڑ کی قیادت میں ایک قوم پرست جماعت بنانے کی تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہو گئی ہیں اور بہت جلد الیکشن کمیشن کے ساتھ ایک قومی سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کی جائے گی۔ ایک سوال پر بتایا گیا کہ منظور پشتین کی حمایت بھی جاری رکھی جائے گی اور انہیں تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔
ادھر منظور پشتین کے قریبی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پی ٹی ایم نئی سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کرے گی۔ پی ٹی ایم لاپتہ افراد کی بازیابی اور قبائلی علاقوں میں آپریشن کے دوران جو مسائل ہوئے، ان کے حل کیلئے کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اگر اس کے یہ مطالبات مان لئے جاتے ہیں تو وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ پی ٹی ایم کا کوئی ایجنڈا نہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اوراس کے ذمہ دار اگر چاہیں تو منظور پشتین کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔