قرآن کریم کی سورۃ البقرۃ میں ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے، جس میں بنی اسرائیل کو ایک مقتول کا قاتل معلوم کرنے کیلئے ’’گائے‘‘ یا ’’بیل‘‘ ذبح کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہ گائے ایک لڑکے کی ملکیت تھی۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اس گائے کا رنگ گہرا زرد تھا اور بقول قتادہؒ اس کا رنگ صاف تھا اور حضرت حسن بصریؒ کے قول کے مطابق اس کا رنگ زرد سیاہی مائل تھا، لیکن قول اول ہی اصح ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں اس کی تعریف میں (تیز زرد) واقع ہوا ہے اور سواد کے ساتھ فاقع کا استعمال نہیں ہوا۔
جب ان لوگوں نے گائے کو ذبح کر لیا تو حق تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ اس مذبوحہ گائے کے ایک حصے کو مقتول کے بدن پر ماریں۔
گائے کا وہ جز، جو مقتول کے بدن میں مارا گیا تھا، علماء کا اختلاف ہے کہ وہ حصہ کیا تھا۔ چنانچہ ابن عباسؓ اور جمہور مفسرین کا قول ہے کہ وہ ہڈی تھی، جو غضروف کے متعلق ہوتی ہے۔ (غضروف نرم ہڈی کو کہتے ہیں، جیسے کان اور ناک وغیرہ) مجاہد اور سعید بن جبیر کی رائے یہ ہے کہ دم کی جڑ تھی، کیونکہ سب سے پہلے اسی کی تخلیق ہوتی ہے اور ضحاک کہتے ہیں کہ زبان ماری گئی تھی کہ کیونکہ زبان ہی آلہ تکلم ہے۔
عکرمہ اورکلبی کی رائے ہے کہ داہنی ران ماری گئی تھی اور بعض کا قول ہے کہ کوئی معین جز نہیں تھا۔ چنانچہ جب انہوں نے اس مذبوحہ گائے کا گوشت اس مقتول کے بدن سے مس کیا تو مقتول بحکم خداوندی زندہ ہو گیا۔ اس حال میں کہ اس کی گردن کی رگیں خون سے پھول رہی تھیں اور زندہ ہو کر اس نے بتا دیا کہ مجھے فلاں نے قتل کیا اور اتنا کہنے کے بعد پھر مردہ ہو کر گر گیا۔ لہٰذا اس کا قاتل میراث سے محروم ہو گیا۔ اس کے بعد کوئی بھی قاتل میراث کا مستحق نہیں ہوا، مقتول کا نام عامیل تھا۔
زمخشری وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ مروی ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک نیک بوڑھا تھا، اس کے پاس ایک بچھیا تھی، وہ اس کو لے کر جنگل میں پہنچا اور کہا کہ اے پروردگار! میں اس کو اپنے لڑکے کے بڑا ہونے تک تیری حفاظت میں دیتا ہوں، چنانچہ لڑکا بڑا ہو گیا، جو اپنی والدہ کا نہایت فرماں بردار تھا اور وہ گائے بھی جوان ہو گئی۔ یہ گائے نہایت خوبصورت اور فربہ تھی۔ لہٰذا بنی اسرائیل نے اس یتیم اور اس کی ماں سے سودا کر کے اس کی کھال بھر سونے کے بدلے میں اس کو خرید لیا، جبکہ اس زمانہ میں گائے کی قیمت صرف تین دینار تھی۔
زمخشری وغیرہ نے لکھا ہے کہ بنی اسرائیل چالیس سال تک اس گائے کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ حدیث میں مذکور ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اگر بنی اسرائیل حکم ملتے ہی کسی بھی گائے کو ذبح کر دیتے تو کافی ہوتا، لیکن انہوں نے شدت اختیار کی تو رب تعالیٰ نے بھی ان کا معاملہ شدید بنا دیا اور استقصا نحوست ہے۔
ایک بار حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے اپنے ایک گورنر کو لکھا کہ جب میں تجھ کو حکم دوں کہ فلاں کو ایک بکری عطا کر دو تو تم پوچھو گے کہ نر یا مادہ؟ اور اگر میں یہ بھی بتا دوں گا تو تم پوچھو گے کہ کالی بکری دوں یا سفید؟ لہٰذا جب میں کسی چیز کا حکم دوں تو اس میں مراجعت مت کیا کرو۔
ایک دوسرے خلیفہ کا واقعہ ہے کہ اس نے اپنے گورنر کو لکھا کہ فلاں قوم کے پاس جا کر ان کے درختوں کو کاٹ دو۔ اور ان کے مکانات کو منہدم کر دو تو گورنر نے لکھا کہ درخت اور مکانات میں سے کون سی کارروائی پہلے کروں؟ خلیفہ نے جواب میں لکھا کہ اگر میں تم کو لکھ دوں کہ درختوں سے کام کا آغاز کرو تو تم پوچھو گے کہ کس قسم کے درختوں سے آغاز کروں۔ مطلب یہ ہے کہ جب حکم ملے تو مزید قیل و قال اور بحث و مباحثہ نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ فوراً ہی اس پر عمل کرنا چاہئے۔مگر بنی اسرائیل نے ایسا نہیں کیا، بلکہ اس تحقیق و تفتیش میں پڑ گئے تو معاملہ بھی مشکل تر ہوتا چلا گیا۔