چنانچہ بلعم بن باعورا کی قوم نے اس کے بتائے ہوئے مکر کا جال بچھایا اور بہت سی خوبصورت دوشیزاؤں کو بناؤ سنگھار کرا کر بنی اسرائیل کے لشکروں میں بھیجا۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کا ایک رئیس ایک لڑکی کے حسن و جمال پر فریفتہ ہو گیا اور اس کو اپنی گود میں اٹھا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے گیا اور فتویٰ پوچھا کہ اے خدا کے نبی! یہ عورت میرے لئے حلال ہے یا نہیں؟ آپ نے فرمایا کہ خبردار! یہ تیرے لئے حرام ہے۔ فوراً اس کو اپنے سے الگ کردے اور خدا عزوجل کے عذاب سے ڈر۔ مگر اس رئیس پر غلبہ شہوت کا ایسا زبردست بھوت سوار ہو گیا تھا کہ وہ اپنے نبی علیہ السلام کے فرمان کو ٹھکرا کر اس عورت کو اپنے خیمہ میں لے گیا اور برائی کا مرتکب ہوا جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے منع فرمایا تھا۔ اس گناہ کی نحوست کا یہ اثر ہوا کہ بنی اسرائیل کے لشکر میں اچانک طاعون (پلیگ)کی وبا پھیل گئی اور گھنٹے بھر میں ستر ہزار آدمی مر گئے اور سارا لشکر تتر بتر ہو کر ناکام و نامراد واپس چلا آیا۔ جس کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قلب ِ مبارک پر بہت ہی صدمہ گزرا۔ (تفسیر الصاوی،ج۲، ص۷۲۷، پ۹، الاعراف:۵۷۱)
بلعم بن باعوراء پہاڑ سے اتر کر مردود بارگاہِ الٰہی ہو گیا۔ آخری دم تک اس کی زبان اس کے سینے پر لٹکتی رہی اور وہ بے ایمان ہو کر مر گیا۔ اس واقعہ کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔
ترجمہ: اور اے محبوب انہیں اس کا احوال سناؤ، جسے ہم نے اپنی آیتیں دیں تو وہ ان سے صاف نکل گیا تو شیطان اس کے پیچھے لگا تو گمراہوں میں ہو گیا اور ہم چاہتے تو آیتوں کے سبب اسے اٹھا لیتے، مگر وہ تو زمین پکڑ گیا اور اپنی خواہش کا تابع ہوا تو اس کا حال کتے کی طرح ہے تو اس پر حملہ کرے تو زبان نکالے اور چھوڑ دے تو زبان نکالے یہ حال ہے ان کا جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں تو تم نصیحت سناؤ کہ کہیں وہ دھیان کریں۔ (پ9، الاعراف: 175، 176)
بلعم بن باعوراء کیوں ذلیل ہوا؟
روایت ہے کہ بعض انبیائے کرام نے خدا تعالیٰ سے دریافت کیا کہ تو نے بلعم بن باعوراء کو اتنی نعمتیں عطا فرما کر پھر اس کو کیوں اس قعرِ مذلت میں گرا دیا؟ تو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے میری نعمتوں کا کبھی شکر ادا نہیں کیا۔ اگر وہ شکر گزار ہوتا تو میں اس کی کرامتوں کو سلب کر کے اس کو دونوں جہاں میں اس طرح ذلیل و خوار اور غائب و خاسر نہ کرتا۔ (تفسیر روح البیان،ج۳، ص۹۳۱، پ۸، الاعراف: ۱۰)