حضرت علی بن الحسنؒ فرماتے ہیں: ’’عبدالملک بن مروان نے ایک شخص کو حاکم بنا کر مدینہ منورہ بھیجا تاکہ وہ بیعت وغیرہ کے انتظامات کرے۔‘‘ چنانچہ میں حضرت سالمؒ، حضرت قاسم بن محمدؒ اور حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمنؒ کے پا س گیا اور ان سے کہا: ’’آئو ہم سب اپنے شہر کے نئے حاکم کے پاس چلتے ہیں تاکہ اس سے ملاقات کریں اور اسے اعتماد میں لیں۔‘‘
چنانچہ ہم اس حاکم کے پاس گئے اور اسے سلام کیا، اس نے ہمیں اپنے پاس بلایا اور کہا: ’’تم میں سعید بن مسیّب کون ہے؟‘‘ حضرت قاسم بن محمدؒ نے جواب دیا: ’’حضرت سعید بن مسیبؒ امراء سے تعلق نہیں رکھتے، انہوں نے مسجد میں رہنے کو لازم کر لیا ہے، وہ ہر وقت دربار الٰہی میں مشغولِ عبادت رہتے ہیں، دنیا داروں سے انہیں کوئی غرض نہیں، وہ امراء کے درباروں میں جانا پسند نہیں فرماتے۔‘‘
اس حاکم نے کہا: ’’تم لوگ اسے میرے پاس آنے کی ترغیب دلائو اور اسے میرے پاس ضرور لے کر آنا، خدا کی قسم! اگر وہ نہ آیا تو میں اسے ضرور قتل کردوں گا۔‘‘ اس حاکم نے تین مرتبہ قسم کھا کر ان الفاظ کے ساتھ قتل کی دھمکی دی۔ حضرت قاسمؒ فرماتے ہیں کہ اس ظالم حکمران کی یہ دھمکی سن کر ہم بہت پر یشان ہوئے اور واپس چلے آئے۔ میں سیدھا مسجد میں گیا اور حضرت سعید بن مسیبؒ کے پاس پہنچا، آپؒ ایک ستون سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ میں نے انہیں ساری صورتحال سے آگاہ کیا اور عرض کی: ’’حضور! میری تو رائے یہ ہے کہ آپ عمرہ کرنے چلے جائیں اور کچھ عرصہ مکہ مکرمہ میں گزاریں تاکہ آپ اس شریر حاکم کی نظروں سے اوجھل رہیں اور معاملہ رفع دفع ہوجائے۔‘‘
آپ نے جواباً ارشاد فرمایا: ’’ میں اس عمل میں اپنی نیت حاضر نہیں پاتا اور میرے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جو خلوص نیت سے ہو اور صرف رضائے الٰہی کے لئے ہو۔‘‘ میں نے کہا: ’’پھر آپ اس طر ح کریں کہ چند دن کیلئے کسی دوست کے ہاں قیام فرمائیں، اس طر ح جب کسی شخص کی آپ پر نظر نہیں پڑے گی اور آپ مسجد میں نہیں ہوں گے تو چند دنوں میں معاملہ ختم ہو جائے گا اور حاکم یہی سمجھے گا کہ آپ کہیں چلے گئے ہیں۔‘‘
آپ نے فرمایا: ’’اگر میں ایسا کروں اور کسی کے گھر میں قیام کروں، تو جب موذن اذان کی صدائیں بلند کر کے مجھے دربارِ الٰہی کی طر ف بلائے گا تو میں اس کے حکم سے روگردانی کس طر ح کر سکوں گا، دن رات مجھے میرے پاک پروردگار کی جانب سے مسجد میں حاضری کا حکم ملے اور میں ایک ظالم حکمران کی وجہ سے احکم الحاکمین کے حکم سے اعراض کروں۔ یہ بات میں کبھی بھی گوارا نہیں کرسکتا، چاہے میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے، میں مسجد کو ہر گز نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
یہ جرأت مندانہ جواب سن کر میں نے عرض کی: ’’حضور! پھر آپ اس طرح کریں کہ کسی اور مسجد میں نماز ادا فرما لیا کریں اور اپنی مجلسِ علم کسی اور جگہ قائم کر لیا کریں۔ اس طر ح بھی آپ اس حاکم کی نظروں سے اوجھل رہ سکتے ہیں۔‘‘ آپ نے جواب دیا کہ میں عرصہ دراز سے اسی مسجد میں اسی ستون کے پاس اپنے پروردگار کی عبادت کر رہا ہوں، اب کسی ظالم کے خوف سے میں اس جگہ کو چھوڑ دوں، یہ مجھے ہرگز منظور نہیں، میں اسی مسجد میں اسی ستون کے پاس عبادتِ الٰہی میں مشغول رہوں گا۔‘‘
حضرت قاسمؒ فرماتے ہیں کہ جب آپؒ نے میری تینوں باتوں سے انکار فرما دیا تو میں نے عرض کی: ’’خدا آپ پر رحم فرمائے، کیا آپ کو اپنی موت سے ڈر نہیں لگتا، لو گ تو موت کے نام سے بھی کانپ جاتے ہیں اور آپ ہیں کہ حاکم کی شدید دھمکی کے باوجود ذرہ برابر بھی خوفزدہ نہیں ہوئے۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم! میں اپنے رب کے علاوہ کسی سے بھی نہیں ڈرتا، مجھے صرف اسی پروردگار کا خوف ہے، اس کے علاوہ میں مخلوق میں کسی سے نہیں ڈرتا۔‘‘
میں نے عرض کی: ’’حضور! حاکم نے شدید دھمکی دی ہے، میں تو بہت پریشان ہوگیا ہوں، کہیں وہ ظالم حاکم آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’اے قاسم! تم بے فکر رہو، میرا پروردگار میری حفاظت فرمائے گا۔ میں اپنے رب جو کہ عرش ِعظیم کا مالک ہے، اس کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ میرے معاملہ کو اس ظالم حاکم سے بھلا دے۔‘‘
یہ سن کر میں وہاں سے چلا آیا، مجھے آپ کی طر ف سے بہت پریشانی کا سامنا تھا۔ میں روزانہ لوگو ں سے پوچھتا کہ آج شہر میں کوئی خاص واقعہ تو پیش نہیں آیا۔ آج حضرت سعید بن مسیبؒ کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ تو پیش نہیں آیا، لیکن مجھے ہر مرتبہ خیر ہی کی خبر ملتی۔ اسی طرح ایک سال امن و امان سے گزر گیا، وہ حاکم ایک سال وہاں رہا، لیکن وہ حضرت سعید بن مسیبؒ کا بال بھی بیکا نہ کر سکا۔ آپ کی دعا بارگاہ ِخداوندی میں مقبول ہوئی اور آپ کا ذکر اس حاکم کو بھلا دیا گیا۔ ایک سال بعد وہ حاکم معزول کر دیا گیا اور اسے کسی اور جگہ کا حاکم بنا دیا گیا، ایک دن اس حاکم نے اپنے غلام سے کہا: ’’تیرا ناس ہو! میں نے علی بن حسین، قاسم بن محمد اور سالم کے سامنے تین مرتبہ قسم کھائی تھی کہ میں سعید بن مسیب کو قتل کروں گا، لیکن جب تک میں مدینہ منورہ میں رہا مجھے سعید بن مسیب کا خیال تک نہ آیا، نہ جانے مجھے کیا ہوگیا تھا۔ اب میں تو ان حضرات کے سامنے رسوا ہو کر رہ گیا کہ میں اپنی قسم کو پورا نہ کر سکا۔‘‘
اس غلام نے کہا: ’’اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں کچھ عرض کروں؟‘‘ حاکم نے کہا: ’’تمہیں اجازت ہے جو کہنا چاہو بے د ھڑک کہو۔‘‘ غلام نے کہا: ’’حضور! خدا نے آپ سے حضرت سیدنا سعید بن مسیبؒ کے ذکر کو بھلا دیا اور آپ کو ان کے قتل کے گناہ میں ملوث نہ ہونے دیا۔ یہ تو آپ کے حق میں خدا نے بہت بہتر فیصلہ فرمایا ہے، ورنہ (قتلِ ناحق کا) جو ارادہ آپ نے کیا تھا، اس میں سراسر آپ کا نقصان تھا۔ خدا کا فیصلہ آپ کے حق میں یقینا بہتر ہے۔‘‘ غلام کی یہ بات سن کر حاکم نے کہا: ’’اے غلام! جائو تم خدا کی رضا کی خاطر آزاد ہو۔‘‘