قاضی ابوبکر ابن عربیؒ نقل فرماتے ہیں کہ جس زمانے میں منصور بغداد کا خلیفہ تھا، موسیٰ بن عیسیٰ ہاشمی نام کے ایک شخص نے اپنی بیوی کو فرط محبت میں یہ کہہ دیا کہ: ’’اگر تم چاند سے زیادہ حسین نہ ہوتو تمہیں تین طلاق‘‘ بیوی سخت پریشان ہوئی، اور سمجھی کہ طلاق واقع ہوگئی ہے، اس لئے شوہر کے سامنے آنا بھی بند کردیا۔ شوہر نے یہ الفاظ فرط محبت سے کہہ دیئے تھے، مگر جب ہوش آیا تو اسے بھی فکر ہوئی، اور اس کی ساری رات بڑے اضطراب میں گزری، بڑی مشکل سے صبح ہوئی تو وہ خلیفہ منصور کے پاس پہنچا اور واقعہ بتلایا۔ منصور نے فوراً شہر کے بڑے بڑے علماء و فقہاء کو جمع کرکے مسئلہ ان کے سامنے رکھا، اکثر فقہاء کی رائے یہ ہورہی تھی کہ طلاق واقع ہوگئی ہے، اس لئے کہ اس کی بیوی فی الواقعہ چاند سے زیادہ اچھی نہیں ہے۔
لیکن ایک فقیہ تھے جنھوں نے یہ رائے پیش کی کہ طلاق واقع نہیں ہوئی، ان سے وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم کاارشاد ہے۔ ’’لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم‘‘ (بلاشبہ ہم نے انسان کو بہترین قوام کے ساتھ پیدا کیا ہے)۔ منصور نے اس جواب کو بے حد پسند کیا، اور موسیٰ بن عیسیٰ کو یہی کہلا کر بھیج دیا کہ طلاق واقع نہیں ہوئی۔
( حیاۃالحیوان للد میریؒ ج:ا ص:۳۲ لفظ: انسان)