عمران خان:
پابندی کے باوجود حرام اور مضر صحت اجزا پر مشتمل ’’اجینو موتو‘‘ یعنی چائنیز نمک، پاکستان بھر کے پکوان ہائوسزاور ہوٹلوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ کراچی کا علاقہ جوڑیا بازاراوربولٹن مارکیٹ کی مارکیٹیں اور تاجروں کے گودام ملک میں اسمگل شدہ چائنیز نمک کی ڈمپنگ اور سپلائی کے مرکز بن گئے ہیں۔ جہاں روزانہ کی بنیاد پر درجنوں شہزور ٹرکوں اور چھوٹی سوزوکیوں میں گرم مصالحہ جات کی سپلائی کی آڑ میں اجینو موتو کی ہزاروں کلو گرام مقدار منتقل کی جا رہی ہے۔ جسے کوئٹہ سے مسافر بسوں اور دیگر سامان کی گاڑیوں میں کراچی کے یوسف گوٹھ کے گوداموں میں منتقل کرنے کیلiے اسمگلروں کے متعدد گروپ سرگرم ہیں۔ جبکہ اپریزمنٹ پورٹ قاسم، اپریزمنٹ ایسٹ اور اپریزمنٹ ویسٹ پر سرگرم بعض ایجنٹوں کی مدد سے کئی درآمدی کمپنیوں کے نام پر منگوائے گئے غیر ملکی سامان میں بھی اجینو موتو کی بھاری مقدار چھپا کر لائی جارہی ہے۔ جسے کراچی کی مرکزی مارکیٹوں میں سپلائی کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں جو اجینو موتو 150روپے کلو کے حساب سے فروخت ہوتا تھا وہ اب قانونی درآمد کے بند ہونے کے بعد پہلے 600 روپے کلو تک پہنچا۔ تاہم اب اس کی قیمت 450 اور 500 روپے کلو کے درمیان آکر مستحکم ہوگئی ہے اور یہ سب اسمگل کرکے لایا جارہا ہے۔ کراچی سمیت ملک بھر کے زیادہ تر پکوان ہائوسز اور ہوٹلوں پر کھانوں کے ذائقے کو بڑھانے کے لئے یہی حرام اجزاء پر مشتمل غیر قانونی نمک استعمال کیا جا رہا ہے جس کی در آمد پر سپریم کورٹ کی جانب سے پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق چائنیز نمک کی اسمگلنگ کے لیے ایک منظم نیٹ ورک قائم ہوچکا ہے جس کی سرپرستی اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن پریونٹو کلکٹریٹ میں موجود بعض افسران کر رہے ہیں۔ اسی طرح سے اپریزمنٹ ایسٹ، ویسٹ اور پورٹ قاسم پر بھی ان کے سرپرست اور سہولت کار موجود ہیں جو بھاری رشوت کے عوض اجینو موتو کی اسمگلنگ پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑا نیٹ ورک افغانستان کے نام پر آنے والے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں سرگرم ہے، جس میں دیگر سامان کی آڑ میں اجینوموتو لاکر واپس پاکستان میں اسمگل کردیا جاتا ہے یا پھر راستے میں چوری کرکے گوداموں میں ڈمپ کیا جا رہا ہے۔ بعد ازاں اس کو کوئٹہ کے راستے کراچی یوسف گوٹھ کے گوداموں میں سپلائی کرنے کے بعد اولڈ سٹی ایریا کے تاجروں کو سپلائی کردیا جاتا ہے۔ کوئٹہ سے کراچی منتقل کرنے کے لیے جوڑیا بازار اور بولٹن مارکیٹ کے ان بڑے اسمگلروں اور سرمایہ کاروں کیلیے متعدد گروپ سرگرم ہیں۔
کسٹم ذرائع کے مطابق اس وقت کراچی کے بڑے اسمگلروں میں محمد صادق، باری، لالی اور حاجی صادق شامل ہیں۔ جبکہ کوئٹہ سے کراچی تک ان اسمگلروں کے گوداموں میں سامان پہنچانے والے ٹرانسپورٹیشن والے اسمگلروں میں حاجی لالی، صادق نبی بخش شامل ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر ٹرکوں اور انٹر سٹی بسوں میں اجینو موتو کی کھیپ کراچی پہنچانے کا انتظام کرتے ہیں۔ جبکہ کراچی سپلائی کے بعد یہ اسمگل شدہ چائنیز نمک پورے پاکستان کی مارکیٹوں میں نجی ٹرانسپورٹ کے ذریعے سپلائی کردیا جاتا ہے۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق گزشتہ دنوں کسٹم کی ٹیم کی جانب سے چھاپہ مار کر اجینو موتو نمک کی بھاری کھیپ پکڑی گئی۔ تاہم بعد ازاں کسٹم حکام نے مضر صحت چائنیز نمک کی اسمگلنگ کیس میں حتمی رپورٹ تیار کرکے جمع کروائی جس میں الاصغر گڈز ٹرانسپورٹ کمپنی کے نمائندے فضل الرحمان کو مرکزی ملز م قرار دیا گیا۔ مذکورہ کمپنی کراچی میں ہاکس بے روڈ پر قائد اعظم ٹرک اسٹینڈ کے قریب قائم ہے، اس کے کوئٹہ میں بھی دفاتر موجود ہیں۔ کسٹم رپورٹ کے مطابق مضر صحت چینی نمک کی اسمگلنگ کی اطلاع پر ویسٹ وہارف کے علاقے میں موجود پاک انٹر نیشنل گڈز ٹرانسپورٹ کمپنی کے گودام پر چھاپہ مار کر 15 ہزار کلو گرام مضر صحت چینی نمک اجینو موتو قبضے میں لے لیا گیا اور مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کی گئی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں اجینو موتو کو مضر صحت قرار دے کر اس کی پاکستان میں قانونی درآمد پر کسٹم نے پابندی عائد کررکھی ہے۔ تاہم کئی اسمگلر مذکورہ نمک، ایران اور افغانستان کے راستے اسمگل کرنے کے علاوہ کراچی کی بندرگاہوں سے دیگر سامان کی آڑ میں منگواکر ملک بھر میں سپلائی کر رہے ہیں۔ کسٹم کی تفتیش کے مطابق کارروائی میں بر آمد ہونے والی نمک کی مالیت 60 لاکھ روپے سے زائد ہے۔
دوسری جانب اس پر اتنا ہی ٹیکس اور ڈیوٹی چوری کیا گیا۔ کسٹم ذرائع کے مطابق مذکورہ نمک کی کھیپ الاصغر گڈز ٹرانسپورٹ کمپنی نے کوئٹہ سے لاکر شاہین انٹر نیشنل گڈز کمپنی کے گودام میں رکھوایا تھا۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں ہی کمپنیوں کے افراد اس اسمگلنگ میںملوث تھی کیونکہ اس گودام سے مذکورہ اسمگل شدہ نمک ڈیلروں کو کراچی اور دیگر شہروں میں سپلائی کیا جا رہا تھا۔ مذکورہ کیس میں نامزد ملزم فضل الرحمن پہلے ہی ایک لاکھ روپے کے مچلکے پر ضمانت پر ہے۔ اسی طرح سے کچھ عرصہ قبل کسٹم کلیکٹریٹ پورٹ قاسم کے حکام نے بال کلے (چکنی مٹی) کی آڑ میں ممنوعہ قرار دیا گیا۔ اجینوموتو کلیئر کرانے کا مقدمہ درج کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق کسٹم کلکٹریٹ پورٹ قاسم میں کسٹم انٹیلی جنس یونٹ (سی آئی یو) کے حکام نے اپریزنگ افسر شبیر علی خان کی مدعیت میں مقدمہ میں میسرز محسن علی کے مالک محسن، کلیئرنگ ایجنٹ سمیع اللہ اور کسٹم ایگزامنیشن افسر ملک سدا بہار کو نامزد کیا گیا۔ ذرائع کے بقول پورٹ قاسم کے ایم ٹی او یارڈ میں چین سے درآمد کی گئی گڈز ڈیکلیریشن کی میسرز محسن پلاسٹک این ٹی این نمبر (7206142-4) نے 13900 کلو گرام بال کلے (مٹی) ظاہر کرکے کلیئرنس حاصل کی۔ جسے ایم ٹی او یارڈ میں موجود کسٹم ایگزامنگ افسر ملک سدا بہار نے کلیئرکرکے کنسائنمنٹ کو پورٹ سے نکلنے کی اجازت دی۔ تاہم پورٹ قاسم پر کسٹم انٹیلی جنس یونٹ (سی آئی یو) نے روک کر ری ایگزامنگ کی تو بال کلے کی جگہ اجینوموتو برآمد ہوا، جس کا وزن 10 ہزار کلو گرام تھا۔
واضح رہے کہ 2016ء میں سپریم کورٹ کے احکامات پر اجینو موتو کی درآمد پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ کیونکہ اس میں حرام اجزا کثرت میں موجود ہیں۔ اجینو موتو کی اسمگلنگ کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی کو بھی وقت کے ساتھ دبا دیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق کسٹم کراچی اور ایف بی آر کے مختلف شعبوں بشمول پریونٹو کلکٹریٹ کے اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن (ASO)، اپریزمنٹ ویسٹ، اپریزمنٹ ایسٹ اور اپریزمنٹ پورٹ قاسم میں موجود کرپٹ افسران اور ان کے پرائیویٹ کارندوں ’’لپوئوں‘‘ کے خلاف تحقیقاتی ٹیم نے رپورٹ پر کام شروع کیا۔ تاہم وقت کے ساتھ اس کو دبا دیا گیا۔
مذکورہ رپورٹ کیلیے ایف بی آر حکام نے ہدایات جاری کی تھیں کہ قومی خزانے کو ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کی مد میں اربوں روپے کا نقصان پہنچانے والی مافیا کو بے نقاب کرکے ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی جائے گی۔ اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ ایف بی آر ان لینڈ ریونیو میں ڈرائیور کی حیثیت سے کام کرنے والے شہزاد کو حساس اداے کی ٹیم نے حراست میں لیا، جس سے ایک ماہ تک طویل تفتیش کی گئی۔ اس تفتیش کے دوران شہزاد کے موبائل سے 31 اسمگلروں کے، جن میں کئی امپورٹر اور کلیئرنگ ایجنٹ شامل تھے، رابطے ملے۔ اس کے علاوہ شہزاد سے مزید معلوم ہوا کہ تمام امپورٹرز اور کلیئرنگ ایجنٹوں سے اس نے کسٹم کے 9 افسران سے سیٹنگ کروا رکھی تھی، جو کراچی کے مختلف شعبوں میں تعینات ہیں۔ مذکورہ انکشافات کے بعد تحقیقاتی ادارے کے افسران کی جانب سے تحقیقات کا دائرہ وسیع اور ایک مفصل رپورٹ تیارکرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔ تاکہ اس پوری مافیا کو بے نقاب کیا جا سکے۔