گھی کے ایک کلو کے پیکٹ پر 31 روپے کا اضافہ کیا گیا۔فائل فوٹو
گھی کے ایک کلو کے پیکٹ پر 31 روپے کا اضافہ کیا گیا۔فائل فوٹو

رمضان سے قبل ہی یوٹلیٹی اسٹورز پر اشیا کی قلت

امت رپورٹ:
ماہ رمضان سے پہلے ہی یوٹیلٹی اسٹورز پر اشیا کی قلت ہے۔ ان میں وہ بنیادی اجناس شامل ہیں، جو ہر گھر کی ضرورت ہوتی ہیں۔ واضح رہے کہ اس برس حکومت نے سات ارب اسّی کروڑ روپے کے تاریخی رمضان پیکج کا اعلان کیا ہے۔ جس کے تحت انیس مختلف اشیا پر سبسڈی دی جائے گی۔ تاہم یوٹیلٹی اسٹورز کے مختلف ریجنوں کے ذمہ داران اور پریکیورمنٹ (خریداری) کے شعبے سے وابستہ ذرائع نے نہ صرف اس پوری سبسڈی کے استعمال کو مشکل قرار دیا ہے۔ بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ ماہ رمضان میں اس بار بھی اہم اشیائے ضروریہ کی قلت خارج از امکان نہیں۔ کیونکہ رمضان میں ایک ماہ سے کم کا عرصہ باقی رہ گیا ہے۔ لیکن تاحال اتنے بڑے پیمانے پر اعلان کردہ سبسڈی کے مطابق خریداری کا عمل شروع نہیں ہو سکا ہے۔ جبکہ یہ پیکج رمضان سے قریباً دو ہفتے قبل شروع کردیا جائے گا۔ پھر یہ کہ پریکیورمنٹ اور آپریشن سے متعلق شعبوں کی کمان اس بار پھر ایسے افراد کے ہاتھ میں ہے۔ جن پر ماضی میں بے قاعدگیوں اور گھپلوں کے الزام لگتے رہے ہیں۔
حکومت نے رمضان پیکج کے تحت جن اشیا پر سبسڈی یا رعایت کا اعلان کیا ہے۔ ان میں آٹا، گھی، خوردنی تیل، دال چنا، دال مسور، دال ماش، دال مونگ، سفید چنا، کالا چنا، چائے کی پتی، مشروبات، کھجور، بیسن، چینی، چاول اور دیگر شامل ہیں۔ سبسڈی پیکج پر یکم اپریل یعنی ماہ رمضان سے تیرہ، چودہ روز پہلے عمل شروع ہوجائے گا۔ لیکن صورتحال یہ ہے کہ ابھی سے ملک بھر کے اکثریتی یوٹیلٹی اسٹورز پر اہم اشیا ضروریہ کی شدید قلت ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ملک بھر کے باسٹھ ریجن میں تقسیم چار ہزار آٹھ سو یوٹیلٹی اسٹوروں پر کم از کم چار بڑے آئٹم شارٹ ہیں۔ ان میں گھی سرفہرست ہے۔ جو اس وقت تقریباً نوے فیصد ریجنوں میں دستیاب نہیں۔

ذرائع کے بقول اہم بات یہ ہے کہ اس وقت یوٹیلٹی اسٹوروں پر سب سے زیادہ سبسڈی آٹے کے بعد گھی پر دی جارہی ہے، جو تقریباً اسّی روپے فی کلو بنتی ہے۔ مارکیٹ میں ایک کلو گھی دو سوچالیس سے دو سو پچاس روپے ہے۔ جبکہ یوٹیلٹی اسٹوروں پر اس کی قیمت ایک سو ستر روپے فی کلو ہے۔ لیکن اس وقت نوے فیصد اسٹوروں پر گھی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے غریب عوام رعایتی قیمت سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح یوٹیلٹی اسٹورز کارپویشن نے سپر فائن آٹے کا بیس کلو کا تھیلا تیرہ سو پچھتر روپے میں خریدا ہے اور یوٹیلٹی اسٹوروں پر آٹھ سو روپے فی تھیلا فروخت کیا جارہا ہے۔ یعنی ایک تھیلے پر پانچ سو پچھتر روپے کی سبسڈی دی جارہی ہے۔ لیکن ساٹھ فیصد ریجنوں میں آٹا شارٹ ہے۔

دال چنا کے حوالے سے بھی تقریباً یہی صورتحال ہے۔ جبکہ گھریلو استعمال کے ایک اور اہم آئٹم چینی بھی ستّر فیصد کے قریب ریجنوں میں دستیاب نہیں ہے۔ بالخصوص دیہی علاقوں میں واقع ریجنوں میں یہ چاروں اہم اجناس نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جہاں یوٹیلٹی اسٹوروں سے استفادہ کرنے والے غریبوں کی زیادہ تعداد موجود ہے۔ یوٹیلٹی اسٹورز پر چینی اس وقت اڑسٹھ روپے کلو ہے۔ یوں چینی پر تقریباً چالیس روپے سبسڈی دی جارہی ہے۔ جبکہ دال چنا ایک ہفتہ پہلے تک یوٹیلٹی اسٹورز پر ایک سو تیس روپے فی کلو تھی۔ اور اب ایک سو پینتالیس روپے فی کلو فروخت کی جارہی ہے۔ لیکن مسئلہ قلت کا ہے۔ جس کی وجہ سے غریب عوام رعایتی قیمتوں سے فائدہ نہیں اٹھا پارہے۔

ذرائع نے بتایا کہ آخری ٹینڈر کے تحت یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن نے بیس ہزار ٹن چینی بانوے روپے فی کلو کے حساب سے خریدی تھی۔ اس میں سے پندرہ ہزار ٹن چینی کی خریداری جہانگیر ترین کی ملوں سے کی گئی تھی۔ ذرائع کے مطابق ماہ رمضان میں بھی بیسن، کھجور، دال چنا، چینی، گھی، خوردنی تیل، آٹا اور چند دیگر اشیائے ضروریہ کی قلت کا قوی خدشہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ان اجناس کی پریکیورمنٹ یعنی خریداری یا حصول میں تاخیر ہے۔ اگرچہ بیسن کی خریداری کی گئی ہے۔ لیکن یہ خریداری اتنی مقدار میں نہیں کی گئی، جس حساب سے بڑے پیمانے پر سبسڈی کا اعلان ہوا ہے۔

ذرائع کے بقول ماضی کا ریکارڈ دیکھا جائے تو تقریباً ہر رمضان میں بیسن شارٹ ہوجاتا ہے۔ پچھلے رمضان میں بھی یہی ہوا تھا کہ پندرہ رمضان کے بعد بیسن محض چند ریجنوں پر دستیاب تھا۔ واضح رہے کہ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن دال چنا خرید کر اسے چکیوں سے پسواکر بیسن تیار کرتی ہے۔ یعنی تیار شدہ بیسن نہیں خریدا جاتا۔ چونکہ اس بار حکومت نے سات ارب اسّی کروڑ روپے کی ناقابل یقین سبسڈی کا اعلان کیا ہے۔ لہٰذا فروخت کا تناسب بھی بڑھے گا۔ لیکن اس حساب سے خریداری کے انتظامات دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ اسی طرح کھجور بھی ہر رمضان کے ابتدائی ہفتوں میں تو یوٹیلٹی اسٹوروں پر دستیاب ہوتی ہے۔ لیکن بعد ازاں غائب ہوجاتی ہے۔ پچھلی بار بھی یہی صورتحال تھی۔

ذرائع کے مطابق ہر ماہ رمضان میں ملک بھر کے یوٹیلٹی اسٹوروں پر ساٹھ سے ستّر ہزار ٹن چینی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس بار بہت زیادہ سبسڈی دیئے جانے کے سبب یہ طلب ایک لاکھ ٹن کے قریب ہوگی۔ لیکن تاحال چینی کا کوئی سودا نہیں کیا گیا ہے۔ صرف ٹینڈر کی اطلاعات ہیں۔ اسی طرح ہر ماہ رمضان میں یوٹیلٹی اسٹوروں پر سات سے دس ہزار ٹن دال چنا کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ ہر ریجن کو بیس کلو آٹے کے ڈیڑھ لاکھ بیگ دیئے جاتے ہیں۔ یوں مجموعی طور پر ماہ رمضان میں یوٹیلٹی اسٹوروں کو ترانوے لاکھ بیگ دیے جاتے ہیں۔ اس بار کم از کم آٹے کے تقریباً ڈیڑھ کروڑ تھیلوں کی ضرورت ہوگی۔

یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے اندرونی معاملات سے آگاہی رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ بظاہر حکومت نے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے ساڑھے سات ارب روپے سے زائد کا رمضان پیکج دیا ہے۔ تاہم یہ تمام سبسڈی استعمال ہونے کے امکانات نہایت محدود ہیں۔ ٹریک ریکارڈ بھی یہ بتاتا ہے کہ اس سے پہلے رمضان پیکج سے متعلق محض دو، سوا دو ارب روپے کی سبسڈی بھی پوری طرح استعمال نہیں کی جاسکی ہے۔ گزشتہ برس دو ہزار بیس میں حکومت نے تقریباً سوا دو ارب روپے کا رمضان پیکج دیا تھا۔ تاہم اس میں سے صرف ڈیڑھ سے پونے دو ارب روپے کی سبسڈی استعمال ہوسکی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ وقت پر اجناس کی خریداری کا نہ ہونا تھا۔ اس کے نتیجے میں عوام کو بیشتر اشیا یوٹیلٹی اسٹوروں پر نہیں مل سکی تھیں۔ یوں یوٹیلٹی اسٹورز اپنی فروخت کا ٹارگٹ بھی حاصل نہیں کرسکے تھے۔ جبکہ دو ہزار انیس میں صورتحال اس سے بھی زیادہ بدتر تھی۔ جب پی ٹی آئی حکومت نے ایک ارب پچھتر کروڑ روپے کا رمضان پیکج دیا تھا۔ تاہم صرف پینتیس سے چالیس فیصد سبڈی سے ہی استعمال ہو پائی تھی۔

ذرائع کے مطابق دو ہزار انیس میں اعلان کردہ سبسڈی کا قریباً ساٹھ فیصد حصہ استعمال نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس وقت وزیراعظم کے مشیر صنعت و پیداوار عبدالرزاق دائود نے خریداری پر ہی پابندی لگادی تھی۔ نتیجتاً پورے رمضان میں یوٹیلٹی اسٹورز پر اجناس کی شدید قلت رہی۔ بعد ازاں حکومت نے عبدالرزاق دائود سے صنعت و پیداوار کا قلمدان واپس لے لیا تھا۔ اور پھر حماد اظہر کو وزیر صنعت و پیداوار بنایا گیا۔ اس وقت بھی یہ قلمدان انہی کے پاس ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اگر دو ہزار انیس میں اعلان کردہ رمضان پیکج کی پوری سبسڈی استعمال ہوجاتی تو یوٹیلٹی اسٹورز سیل چوبیس سے پچیس ارب روپے ہوتی۔ لیکن صرف دس ارب روپے کی سیل ہوئی تھی۔ اسی طرح دو ہزار بیس میں اعلان کردہ سبسڈی کے مطابق یوٹیلٹی اسٹورزکی سیل اٹھائیس سے تیس ارب روپے ہونی چاہئے تھی۔ تاہم صرف اٹھارہ ارب روپے کی سیل ہوئی۔ یوں سیل کا ٹارگٹ حاصل نہیں کیا جا سکا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بار ساڑھے سات ارب روپے سے زائد کے رمضان پیکج کے مطابق یوٹیلٹی اسٹورزکی سیل پچاس سے ساٹھ ارب روپے ہونی چاہیے۔ لیکن ماضی کے ٹریک ریکارڈ اور اجناس کی پریکیورمنٹ کے انتظامات کو دیکھتے ہوئے یہ ٹارگٹ حاصل کرنا انتہائی مشکل دکھائی دے رہا ہے۔